90 سیکنڈ میں ذہنی تغیرات سے چھٹکارہ
وہ مجھے غصے سے پاگل کر دیتا ہے۔ وہ مجھے اتنا غصہ دلاتی ہے۔ وہ مجھے جواب دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کی بے حسی میرا دماغ جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی طنزیہ مسکراہٹ مجھے اتنا چڑاتی ہے اور مجبور کردیتی ہے کہ میں اسے ماروں۔ میں ردعمل دینے کے بجائے اور کر بھی کیا سکتا ہوں کہ کیوں کہ وہ مسلسل میرے ضبط کا امتحان لے رہا ہے۔ مجھے بس یہ کرنا ہے۔ میں مجبور ہوں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ مگر اس نے مجھے شدید پریشانی میں ڈال دیا۔
یہ وہ جملے ہیں جو روزمرہ کی زندگی میں گھر اور دفتر میں اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ ہم غصے میں ہوتے ہیں، روتے ہیں، چلاتے ہیں، اندر سے مر جاتے ہیں۔ یہ وہ عام انسانی رد عمل ہے جب معاملات ہمارے موافق نہیں ہورہے ہوتے۔ مختلف حالات مختلف جذبات کو جنم دیتے ہیں۔
ان حالات سے نمٹنا جہاں کشیدگی کا سبب کوئی ایسا شخص ہو جو یا تو خاندان کا رکن ہو یا دفتر کا ساتھی، بہت آزمائشی اور چیلنجنگ ہوتا ہے۔ جہاں بیشتر لوگ ان کشیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، وہیں چند افراد انہیں بہتر طور پر سنبھال لیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی عمل اور رد عمل کا مجموعہ ہے، یہ ایک عام بات ہے جیسا کہ ہونا چاہئے۔ تاہم اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے رد عمل اور اقدامات ہمیں وہ دلواتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جو ہم نہیں چاہتے ہیں اسے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کہ کون سا قدم اٹھانا ہے، ذہانت، تجربے وغیرہ کو ختم کرنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسانی فطرت ایسی ہے کہ ہماری زندگی میں جو کچھ بھی اچھا ہوتا ہے ہم اسے اپنے آپ سے منسوب کرنا پسند کرتے ہیں جبکہ جو چیزیں اچھی نہیں چلتی وہ عام طور پر دوسروں سے منسوب ہوتی ہیں۔ یہ ناکامی کا بنیادی سبب ہے۔
رد عمل ظاہر کرنے اور جواب دینے کے درمیان فرق کامیابی اور ناکامی کے درمیان فرق ہے۔ کیا مزاج اور احساسات آپ کی زندگی کو کنٹرول کر رہے ہیں یا آپ اپنے موڈ اور احساسات کو کنٹرول کر رہے ہیں؟ عام جواب یہ ہے کہ ایک انسان جذباتی کیسے نہیں ہو سکتا؟ ہم روبوٹ نہیں ہیں جو بالکل درست بھی ہے۔
جذباتی ہونا انسان ہے، لیکن رد عمل یا جواب دینے کا انتخاب کرنا وہی ہے جو واقعی انسانی ہے۔ خون کا بہاؤ، غصے کی لہر اور ڈپریشن کا مقابلہ معمول کی بات ہے۔ آپ ان کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں وہی آپ کی انسانیت کا تعین کرتا ہے۔ جانور صرف محرکات پر رد عمل ظاہر کرتے ہیں، انسان بہت بہتر کر سکتے ہیں. یہ 90 سیکنڈ کا ٹیسٹ ہے. یہ 90 سیکنڈ کی طویل آزمائش ہے. آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے لیے مصائب اور اپنی تقدیر کس طرح خود بناتے ہیں۔
- اپنے گریبان میں جھانکنا— مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر لوگ اپنی ذات سے باہر کی جانب دیکھتے ہوئے کوئی قربانی کا بکرا تلاش کرنے کی آسان راہ اختیار کرتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ اپنے آپ پر ترس کھانے، قصور وار نہ ہونے اور پرسکون رہنے کیلئے خود کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ کسی بھی مزاج کا امتحان تب ہوتا ہے جب ماحولیاتی پریشانی، جیسے کہ ایک بد زبان باس، طنزیہ ساتھی، شکوے کرنے والا شریک حیات، یا متکبر گاہک خون کھولنے کا سبب بنتے ہیں۔
دماغ اب اپنے دو حصوں سے پیغام حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے۔ ہمارے دماغ کے وہ دو حصے جو جذبات سے متعلق ہیں وہ فرنٹل کارٹیکس (سوچنے والا حصہ) اور ایمیگڈالا (غصے والا حصہ) ہیں۔ فرنٹل کارٹیکس ہمیں کسی محرک پر رد عمل دینے کی اجازت دیتا ہے جبکہ ایمیگڈالا بیشتر عجلت سے کام لیتے ہوئے ردعمل پر اکساتا ہے۔
جب ایمیگڈالا فعال ہوتا ہے تو یہ رد عمل ظاہر کرنے والی حالتوں کو جنم دیتا ہے جو مزاج کو قابو کرنے دیتی ہیں۔ بدلہ لینے کی حالت، لڑائی یا فرار، ”مجھے حساب برابر ہے“ جیسے رد عمل اُبھرتے ہیں۔ رد عمل ظاہر کرنا شعوری سوچ کے بغیر کام کرنا ہے۔ فوراً حساب برابر کرنا عارضی سکون حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے مگر اس کے نتیجے میں غیر متوقع نتائج جیسے باس کی طرف سے انتباہ، ترقی میں تاخیر، شریک حیات کا چھوڑ جانا وغیرہ سامنے آ سکتے ہیں۔ ہر شخص ان شدتوں والے لمحات سے گزرتا ہے۔
کامیاب شخص اندر کی طرف دیکھے گا اور ان عوامل کی نشاندہی کرے گا جو اسے مشتعل کرتے ہیں اور پھر ان سے اپنے منصوبے کے مطابق نمٹنا سیکھے گا۔ ایک ناکام شخص باہر کی طرف دیکھے گا، خود کو متاثر محسوس کرے گا اور اگر کچھ نہ ہو تو اپنی قسمت کو الزام دینے لگے گا۔ ان مصائب سے بچنے کا پہلا کام یہ ہے کہ ان عوامل کو تلاش کیا جائے جو دماغ کو بگڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان عوامل سے آگاہ ہونا آدھی جنگ جیتنے کے مترادف ہے۔
- خلا پیدا کرنا: جنگ کا دوسرا نصف ان خواہشات پر قابو پانا ہے جو تباہ کن ہیں۔ حملہ کرنے اور بے قابو جذبات کو روکنے کے درمیان صرف ایک مؤثر حکمت عملی ہے— جگہ بنانا۔ یہی 90 سیکنڈ کا اصول ہے۔ یہ تحقیق ہارورڈ سے تعلیم یافتہ نیوروسائنسدان جِل بولٹے ٹیلر کی ہے۔
وہ اسے 90 سیکنڈ کا اصول کہتی ہیں۔
ان کے مطالعے کے مطابق اسٹریس ہارمونز کو آپ کے نظام میں داخل ہونے اور پھرنکلنے میں 90 سیکنڈ سے زیادہ کا وقت نہیں لگتا۔ مثال کے طور پرجب آپ کسی صورتحال پر غصے کو بطور ردعمل محسوس کرتے ہیں تو ایڈرینالین( ہارمون) آپ کے جسم میں 90 سیکنڈ تک دوڑتا ہےاور پھر یہ ختم ہوجاتا ہے۔
لیکن یہاں ایک اہم پہلو اور بھی ہے۔ ہمارے جسم صرف 90 سیکنڈ بعد ہی تناؤ کے ہارمونز پیدا کرنا بند کرتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنے خیالات کو اس چیز سے ہٹا لیں جس نے جذبات کو جنم دیا تھا۔ جب تک ہم اسی صورتحال میں رہیں گے، ہم ان برے لمحات کو زندہ رکھیں گے اور ایڈرینالین کو بڑھنے دیں گے جس سے فرنٹل کارٹیکس دماغ پر قبضہ کر لے گا۔
اور اس 90 سیکنڈز کا وقت اس دماغی طوفان میں بہت لمبا لگتا ہے۔ اس لیے تجویز یہ ہے کہ ان 90 سیکنڈز کو ایک مشاہدے کے طور پر گزاریں— اپنے موبائل کو نکالیں اور اسٹاپ واچ لگائیں اور اس پر 90 سیکنڈ تک نظر جمائے رکھیں۔ ان منفی خیالات کے بجائے 90 سیکنڈ پر توجہ دینے سے دماغ میں جو طلاطم برپا ہے وہ پرسکون ہوجائے گا۔
رخ موڑنا اور توجہ ہٹانا: ذہنی انتشار کے 90 سیکنڈ کی بلندی پر پہنچنے کے بعد آپ دماغ کو موڑنے کے دیگر طریقوں پر غور کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کمرے سے باہر نکلیں اور گہری سانس لیں۔ 90 تک الٹی گنتی گنیں۔ باہر جائیں اور 90 سیکنڈ کے لئے چلیں۔ پودوں کو پانی دیں۔
اپنا پسندیدہ گانا سنیں۔ کسی ایسے دوست کو کال کریں جو آپ کو خوشیوں کا احساس دلائے اور ہنسائے بھی۔ اس بات کا مقصد یہ ہے کہ ایمیگڈالا کو پرسکون کیا جائے اور ذہنی شورش کو ختم کیا جائے۔ یہی وہ جگہ ہے جو فرنٹل کارٹیکس کو کام کرنے کا موقع دیتی ہے۔
جب دماغ میں شور 90 سیکنڈ کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور آپ بہار کے موسم میں آنے والے نئے پودوں کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں تو انتخاب کرنے اور پھر جواب دینے کی صلاحیت واپس آجائے گی۔ جوں جوں منطق اور معقولیت بحال ہوتی ہے رد عمل کے نتائج آپ پر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
کسی گاہک کی بدتمیزی پر مبنی ای میل کے جواب میں اس فارمولے کو آزمائیں۔ ایک جواب لکھیں اور ایک گھنٹے کے لیے ڈرافٹ میں رکھ دیں۔ پھر دھیان ہٹا کر واپس آئیں اور اسے دوبارہ پڑھیں۔ اکثر ایسا ہوگا کہ آپ جوابی ایل ایڈٹ کریں گے کیونکہ آپ کو احساس ہوگا کہ آپ بحث جیت سکتے ہیں لیکن گاہک کو کھو سکتے ہیں۔
یہ 90 سیکنڈ کا وقفہ وہ فرق ہے جو آپ کو ایک گاہک، ایک عزیز، ایک ملازمت یا کسی تعلق کو کھونے سے بچا سکتا ہے۔ اس پر غور کریں، اپنے آپ کا مشاہدہ کریں، اس پر عمل کریں اور اپنی تقدیر کے لیے ایک زیادہ بامقصد راستہ دریافت کریں۔ یہ سب کچھ صرف 90 سیکنڈز کی بات ہے۔
Comments