پنشن کیلکولیشن کا نیا فارمولہ
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ آفس میمورنڈم میں کہا گیا کہ پے اینڈ پنشن کمیشن 2020 کی تجویز کے تحت پنشن کی مد میں مراعات کے حساب کتاب کے طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی ہے اور متعدد پنشنز کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نئے طریقہ کار کے مطابق پنشن کا حساب ریٹائرمنٹ سے قبل گزشتہ 24 ماہ کی سروس کے دوران حاصل کی جانے والی پنشن ایبل تنخواہوں کی اوسط کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔
اس تبدیلی کے نتیجے میں ٹیکس دہندگان پر واجب الادا پنشن کے اخراجات میں کمی آئے گی، کیونکہ پہلے پنشن کا حساب ریٹائرمنٹ سے قبل حاصل کی گئی آخری تنخواہ کی بنیاد پر کیا جاتا تھا، جو آخری 24 ماہ کی اوسط تنخواہ کے مقابلے میں زیادہ ہوتی تھی، تاہم پنشن بل میں کتنی کمی ہوگی، اس کی تفصیلات ابھی تک عوام کے لیے ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔ یہ بھی عام طور پر معلوم نہیں کہ پنشنز میں اس ماہ سے کمی کی جائے گی کیونکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اس اعلان سے پنشنرز کی طرف سے منظم مزاحمت ہوسکتی ہے۔
پچھلے دس سال سے پنشن اصلاحات پر دو وجوہات کی بنا پر بحث ہورہی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ایک پائیدار پنشن فنڈ کے برعکس جو ملازمین اور ملازمت دینے والوں کی شراکت سے قائم ہوتا ہے اور جمع شدہ فنڈز کو منافع حاصل کرنے کیلئے سرمایہ کاری کرتا ہے، پاکستان میں پنشنز مکمل طور پر ٹیکس دہندگان کی رقم سے ادا کی جاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے جمع کیے جانے والے محصولات کا بڑا حصہ بالواسطہ ٹیکسز سے حاصل ہوتا ہے، جس کا اثر امیروں کے مقابلے میں غریبوں پر زیادہ ہوتا ہے، سالانہ پنشن بجٹ کے اخراجات ٹیکس دہندگان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس عام تاثر کو بھی تقویت دیتا ہے کہ موجودہ اخراجات ہمارے سالانہ بجٹ میں اشرافیہ کے قبضے کی عکاسی کرتے ہیں۔
دوسری جانب اگر ہم پنشنز کو ایک مختلف زاویے سے دیکھیں، تو یہ بات پریشان کن ہے کہ حالیہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جو مہنگائی کی شرح سے زیادہ ہے، یہ پریشان کن بات ہے کہ پنشنرز، جن میں سے بیشتر کے پاس کوئی اور ذریعہ آمدنی نہیں نہ صرف ان کو کوئی اضافہ نہیں دیا گیا بلکہ وہ اب سے پچھلے مقابلے میں کم پنشن وصول کریں گے۔
اس لیے یہ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت کی طرف سے سرکاری ملازمین کو دی جانے والی مراعات جو یقیناً سیاسی وجوہات کے تحت کی گئی ہے، کو ایک جامع تناظر میں دیکھا جائے گا، خاص طور پر ٹیکس دہندگان پر پڑنے والے بوجھ اور پنشنرز کی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
اس تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ سول حکومت کے اخراجات کے لیے 839 ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ ملازمین سے متعلق اخراجات (دفاع) کے لیے 815 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا – یہ اخراجات ایک بار پھر جائزے کی ضرورت رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت سینئر افسران کو ریٹائرمنٹ پر کم قیمت پر زمین کے پلاٹ دیتی ہے–ایک ایسی سہولت جس کیلئے پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہرحال، پنشن کا بل ہر سال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور موجودہ بجٹ میں اس کا تخمینہ ایک کھرب روپے سے کچھ زیادہ ہے — جو پچھلے سال کے نظرثانی شدہ تخمینے 821 ارب روپے سے 19 فیصد اور بجٹ میں مختص کردہ 801 ارب روپے سے 21 فیصد زیادہ ہے۔
اگرچہ مجموعی موجودہ بجٹ کے لحاظ سے پنشن کی مد میں مختص رقم تقریباً 5.7 سے 5.8 فیصد کے درمیان رہی ہے، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے بجٹ میں تیزی سے قرضوں پر انحصار بڑھ رہا ہے — بیرونی اور داخلی دونوں — اور اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ اخراجات کے تمام اجزاء کو کم کرنے کی کوشش کی جائے، سوائے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے جو غریب اور کمزور طبقے کو مالی امداد فراہم کرتا ہے۔
اگر یہ پنشن اصلاحات کی طرف موجودہ حکومت کا پہلا قدم نہیں بلکہ صرف ایک عارضی حل ہے، تو بدقسمتی سے یہ سیاسی بے حسی اور ہچکچاہٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ جو چیز فوری طور پر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین، جو کل لیبر فورس کا 7 فیصد ہیں، اپنی پنشنز میں خود حصہ ڈالیں اور یہ توقع نہ کریں کہ کل ٹیکس دہندگان کو ایک کھرب روپے سے زائد کی پنشن ادا کرنی پڑے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments