پاکستان نے داعش کے عسکریت پسندوں کو تربیت دینے کے افغانستان کے الزامات مسترد کردئیے
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے افغانستان کے قائم مقام نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی کی جانب سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ہے،انہوں نے پاکستان پر داعش کے عسکریت پسندوں کو مسلح کرنے اور تربیت دینے کا الزام لگایا ہے۔
اس ہفتے کے اوائل میں ایک بیان میں عباس ستانکزئی نے دعویٰ کیا تھا کہ داعش کے پاکستان میں تربیتی مراکز ہیں جہاں عسکریت پسند افغانستان میں تخریبی سرگرمیوں کی تیاری کرتے ہیں۔
خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان کے نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی کے ان بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے جو بظاہر الزام تراشی کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان 2024 میں آئی ایس کے پی کی بھرتیوں اور سہولتوں کا مرکز بنا رہا ہے۔
وزیر دفاع نے عبوری افغان حکام پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرکے اور افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لئے واضح اور قابل تصدیق اقدامات کرکے بین الاقوامی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ عبوری افغان حکام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرکے اور افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لئے واضح اور قابل تصدیق اقدامات کرکے بین الاقوامی برادری کو دی گئی اپنی یقین دہانیوں پر عمل کریں۔
پاکستان بارہا ہمسایہ ملک افغانستان پر سرحد پار حملے کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کو پناہ دینے اور ان کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں افغانستان کے مشرقی سرحدی صوبے میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملے کیے تھے۔
افغان وزارت دفاع نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’واضح جارحیت‘ قرار دیا ہے۔
امارت اسلامیہ اس بزدلانہ کارروائی کا جواب دے گی۔ بیان میں طالبان حکام کی جانب سے حکومت کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم اپنی سرزمین اور خودمختاری کے دفاع کو ناقابل تنسیخ حق سمجھتے ہیں۔
اس کے جواب میں افغان طالبان کے جنگجوؤں نے پاکستان میں ’کئی مقامات‘ کو نشانہ بنایا تھا۔
افغان وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا تھا لیکن کہا گیا ہے کہ یہ حملے ’فرضی لائن‘ سے آگے بڑھ کر کیے گئے۔
افغانستان کئی دہائیوں سے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانی جانے والی سرحد کو مسترد کرتا آیا ہے جسے برطانوی نوآبادیاتی حکام نے انیسویں صدی میں موجودہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بنایا تھا۔
Comments