سال 2025 کا آغاز گزشتہ برس کی کئی مشکلات کے ساتھ ہورہا ہے اور آئندہ برسوں میں چیلنجز مزید بڑھیں گے۔ ملک میں غریبوں کی حالت میں کسی قسم کی بہتری نہیں آئی جبکہ حکومتی نظام میں امیر اور غریب کے درمیان تفریق بڑھ رہی ہے جو اب کھل کر سامنے آرہی ہے جس کے سبب مایوسی اور بدامنی بھی بڑھ رہی ہے۔
رواں ہفتے شائع ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں غربت کی شرح 2024 میں 25.3 فیصد تک پہنچ گئی، جو کہ 2023 کے مقابلے میں سات فیصد بڑھ گئی ہے اور تقریباً 13 ملین افراد مزید غربت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غربت میں اضافے کے ساتھ ساتھ،غریب گھرانوں کو فلاحی نقصانات کا سامنا بھی زیادہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ غربت میں دھکیل دیے جا رہے ہیں، اس رپورٹ کا عنوان“پاکستان غربت کی پیش گوئیاں“ ہے۔
آئی ایم ایف کی بیل آؤٹ پیکج سے چلنے والی ملکی معشیت کو سخت چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ حکومت نے موجودہ مالی سال کے پہلے نصف حصے میں آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنے کیلئے 6 کھرب روپے سے زائد ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پورا نہیں کیا اور 386 ارب روپے کم جمع ہوئے۔
موجودہ حکومت نے 2025 کے آغاز پر پانچ سالہ قومی اقتصادی منصوبہ ’اڑان پاکستان‘ شروع کیا۔ اس منصوبے کا مرکزی مقصد 5 ایز پلان ہے، جو ’اڑان پاکستان‘ کے اہداف کا حصہ ہے: برآمدات، ای پاکستان، آب و ہوا موسمیاتی تبدیلی، توانائی اور انفراسٹرکچر، مساوات اور اختیارات دینا۔
اس پروگرام کا مقصد معشیت کو مضبوط بناکر ملک میں استحکام لانا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پروگرام کے افتتاح پر کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی صنعت کو زیادہ مسابقتی بنایا جانا چاہیے تاکہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کی بچت ہو سکے اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات کی بنیاد پر ترقی ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے پاکستان کو مضبوط معیشت بنایا جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت نے سالانہ 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ہدف مقرر کیا ہے اور مقامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ایک سازگار ماحول بھی بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجکاری اور آؤٹ سورسنگ بہت ضروری ہیں تاکہ بھاری نقصان سے بچا جا سکے — تاہم اس کیلئے سیاسی بات چیت ضروری ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ مقامی سطح پر تیار کردہ اقتصادی منصوبہ ’اڑان پاکستان‘ ملک کو اگلے دو سے تین سال میں ایک ایسی جگہ پر لے جائے گا جہاں موجودہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام آخری ثابت ہوگا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسٹرکچرل اصلاحات کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی لانے کے لیے بھی کوشش کر رہی ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں 386 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا ہے جو اہداف اور معاشی حقائق کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ جولائی اور دسمبر کے درمیان 5.623 ٹریلین روپے جمع کیے گئے تھے جو پچھلے سال کے 4.466 ٹریلین روپے کے مقابلے میں 26 فیصد زیادہ ہے تاہم یہ اب بھی اس مدت کے لئے مقرر کردہ 6.009 ٹریلین روپے کے ہدف سے کم ہے۔
حکومت سے جواب درکار ہے کہ وہ اس خسارے کو کس طرح پورا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، سوائے اس کے کہ وہ ایک منی بجٹ کی طرف جا رہی ہو، جو کہ حقیقت میں مزید چیلنجنگ ثابت ہوگا۔
دوسرا اہم سوال جو جواب طلب ہے وہ یہ ہے کہ توانائی کی اخراجات کے مسئلے کا قابل عمل حل کیا ہے، جو ملک کی صنعتی ترقی کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اور خاص طور پر برآمدی صنعت کو زیادہ متاثر کر رہے ہیں۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کہا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ، مسلسل انتظامی اور گورننس کے مسائل، منصوبہ بندی کا فقدان اور ٹیکنالوجی میں کم سرمایہ کاری نے بجلی کے شعبے کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
منگل کو جاری ہونے والی اپنی اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2024 میں پاور سیکٹر ریگولیٹر نے کہا کہ رپورٹ میں نشاندہی کے مطابق اہم مسائل میں بجلی کی زیادہ قیمتیں، نظام کی نااہلی اور بڑھتے ہوئے گردشی قرضے شامل ہیں۔ بیرونی عوامل جیسے ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، اعلی شرح تبادلہ، اور طویل مدتی آر ایل این جی سپلائی معاہدے؛ وغیرہ نے ان چیلنجوں کو مزید بڑھا دیا ہے، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اور اس شعبے کی طویل مدتی پائیداری کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
پاکستان کے الیکٹرک پاور سیکٹر کو درپیش سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک پیداواری صلاحیت ہے جسے اس وقت کم استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کم استعمال کی وجہ سے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ مالی سال 2023-24 کے اختتام تک پاکستان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت 45 ہزار 888 میگاواٹ تک پہنچ گئی جس میں کے الیکٹرک بھی شامل ہے جبکہ اسی عرصے کے دوران اوسط سالانہ استعمال صرف 33.88 فیصد تھا۔
اس کے نتیجے میں بجلی صارفین کو غیر استعمال شدہ صلاحیت کا 66.12 فیصد ادا کرنا پڑا۔
نجکاری کے عمل کے حوالے سے حکومت کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان موجود ہے، کیونکہ حکومت ابھی تک آئی ایم ایف سے کیے گئے نجکاری کے وعدوں، خاص طور پر نقصان میں چلنے والی پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز اور پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی نجکاری کے حوالے سے، کو عملی شکل دینے میں میں مشکلات کا شکار ہے۔
اس بات کا امکان نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کا یہ جاری پروگرام آخری ہوگا کیونکہ یہ صرف آئی ایم ایف پروگرام نہیں ہے بلکہ اس میں دیگر دوطرفہ قرض دہندگان کے وعدوں اور دوست ممالک کے قرضے بھی شامل ہیں۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ ستمبر 2024 ء میں 133.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو گزشتہ سہ ماہی میں 131.0 ارب ڈالر تھا۔ بیرونی قرضوں میں اضافے کا رجحان مستقبل قریب میں کسی بھی وقت کم ہونے کا امکان نہیں ہے جس سے نئے قرضوں کی ضرورت ناگزیر ہوجائے گی۔
یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے اچھے دنوں کے بارے میں ساکھ اور عوام میں امید پیدا کی جا سکے۔
Comments