نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو کہا ہے کہ حکومت پاکستان کو جوہری طاقت سے معاشی قوت میں تبدیل کرنے اور دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہی ہے، یہ بات سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی نے اپنی رپورٹ میں بتائی ہے۔

نائب وزیر اعظم نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معاشی استحکام لانے اور دوطرفہ اور کثیر الجہتی روابط کے ذریعے پاکستان کے سفارتی اثرات کو بڑھانے کے لئے حکومت کی کوششوں کا ایک جائزہ پیش کیا جس میں تازہ ترین سال 2025-26 کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے پاکستان کی دو سالہ مدت کا آغاز ہے۔

اعلی سطح کے تبادلوں اور پاکستان کی بین الاقوامی تقریبات میں شرکت اور ان کی میزبانی پر روشنی ڈالتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنے پہلے 10 مہینوں میں پاکستان کے سفارتی اثرات کو بڑھانے کی بھرپور کوشش کی جس کے نتیجے میں ”تنہا پاکستان“ کے تاثر کو ختم کر دیا گیا۔

نائب وزیرِ اعظم نے کہا کہ ن لیگ کی زیر قیادت اتحادی حکومت کو تقریباً 25 فیصد پالیسی شرح، سست جی ڈی پی نمو اور آسمان کو چھوتی مہنگائی جیسے بڑے چیلنجز ورثے میں ملے۔ تاہم حکومت کی معقول اقتصادی پالیسیوں کی بدولت شرح سود 13 فیصد تک کم ہوئی، مہنگائی 5 فیصد سے کم ہوئی اور ترسیلات، زرِ مبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اسحاق ڈار نے میڈیا کو بتایا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دوروں اور متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت اور آذربائیجان کی قیادت کے ساتھ مؤثر تعلقات کے نتیجے میں پاکستان میں تقریباً 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آنے کے اشارے ملے ہیں۔

انہوں نے نیوکلیئر انرجی سمٹ، سعودی عرب میں ورلڈ اکنامک فورم، گیمبیا میں او آئی سی سمٹ میں پاکستان کی شرکت، سعودی وزیرِ خارجہ کی ملاقات، ایران کے صدر مرحوم ابراہیم رئیسی اور ان کے وزیرِ خارجہ کے دوروں کا ذکر کیا اور کہا کہ ان تمام بات چیت کے دوران پاکستان نے مؤثر طریقے سے مسئلہ کشمیر اور فلسطینی عوام کے خلاف جاری اسرائیلی نسل کشی کو اٹھایا۔ گیمبیا میں او آئی سی سمٹ میں پاکستان کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں اسلاموفوبیا پر او آئی سی کے نمائندے کی تعیناتی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی پرزور حمایت کی اور اس معاملے پر آئی سی جے کے فیصلے کی حمایت کی اور بے گناہ لوگوں کے خلاف اسرائیل کی بربریت کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی طبی طالب علموں کی میزبانی کے علاوہ پاکستان نے غزہ، شام اور لبنان میں بھی امدادی امداد بھیجی ہے۔

نائب وزیرِ اعظم کی پریس کانفرنس میں ڈی-8 سمٹ میں پاکستان کی شرکت، سفیر سہیل احمد کی بطور سیکریٹری جنرل تعیناتی، وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورہ چین اور قازقستان، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا بھی احاطہ کیا گیا جہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر اور غزہ پر بات چیت کی اور درجنوں عالمی رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔

برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ڈیوڈ لیمی کے ساتھ اپنے متعدد روابط کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جنوری میں ایک برطانوی مانیٹرنگ ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی جس کے بعد پی آئی اے کی برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی ہو سکتی ہے، کیونکہ یورپی یونین پی آئی اے پر پابندی ختم کرچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی خوب پذیرائی ہوئی اور اسے سراہا گیا۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ورلڈ مسلم لیگ جلد ہی جناح کنونشن سینٹر میں لڑکیوں کی تعلیم پر ایک ایونٹ منعقد کرے گی جس میں او آئی سی ممالک کے 50 مندوبین بشمول 30 وزرا کی شرکت متوقع ہے۔

نائب وزیر اعظم نے فروری میں ملائیشیا اور بنگلہ دیش کے اپنے آئندہ دورے کا بھی ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے اپنی دو سالہ مدت کا آغاز کیا ہے ، لہذا پاکستان سفارتی رسائی بڑھانے اور تنازعات کے حل اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو برقرار رکھنے کے لئے کام کرنے کی کوششیں کرے گا۔

ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان نے 2018 میں دہشت گردی کا خاتمہ کیا تھا لیکن سابقہ حکومت کی افغان سرحد کھولنے اور سخت گیر مجرموں کی رہائی کی پالیسی کی وجہ سے دہشتگردی پھر شروع ہورہی ہے، ہم افغانستان کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات چاہتے ہیں کیونکہ اس سے ازبکستان جیسے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ روابط کی راہ ہموار ہوگی۔

بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے دونوں فریقوں کا کردار در کار ہے، بھارت پر زور دیتا ہوں کہ وہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ماحول پیدا کرے۔

بعد ازاں، واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے، جس میں بھارت کے غیر ملکی شہریوں کے قتل میں ملوث ہونے کا ذکر تھا، ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی نہ صرف اپنی سرزمین بلکہ غیر ممالک کی سرزمین پر بھی بھارت کی جانب ٹارگٹ کلنگ اور ماورائے عدالت قتل کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، مگر ساتھ ہی پاکستان کے عوام اور سیکیورٹی فورسز اس قابل ہیں کہ کسی بھی اندرونی اور بیرونی خطرے کو ناکام بنا سکیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان کے پورٹس بشمول گوادر پورٹ صرف تجارت اور ترقی کے لیے مخصوص ہیں اور ملک کا کسی غیر ملکی حکومت کو فوجی اڈے دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

Comments

200 حروف