میں نے 2009 میں بزنس ریکارڈر میں ہیڈ آف ریسرچ کے طور پر شمولیت اختیار کی تھی، اس عہدے کو ایک ”بہترین موقع“ کی طرف ایک قدم سمجھا تھا۔ درحقیقت میں نے وہ بہتر، دراصل ”بہترین موقع“ پایا جو ترقی، پہچان اور کاروباری صحافت میں خود کو منفرد مقام بنانے کا موقع تھا اور یہ سب کچھ اسی ادارے میں ہوا۔
میں انتہائی تشکر، احترام اور عقیدت کے ساتھ مسٹر ارشد اے زبیری کی قیادت، وژن، محنت اخلاقیات کو یاد کرتا ہوں جنہوں نے سچے دل سے ان اقدار کو اپنایا جو ہمارے قابل قدر ادارے کی پہچان ہیں۔ شکریہ جناب، آپ کی رہنمائی اور مہربانی کے لیے۔ اللہ آپ کی روح کو سکون دے۔
وہ صرف ایک ”باس“ نہیں بلکہ ایک سرپرست تھے۔ ملک کی اقتصادی اور کاروباری تاریخ پر چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا تھے، یہ ان کے شوق اور اس مقصد کے لئے لگن کی وجہ سے ان کا منتخب کردہ شعبہ تھا۔
انہوں نے اپنے معزز والد کی طرف سے روشن کی گئی مشعل کو مضبوطی سے تھامے رکھا جنہوں نے انہیں اپنے طالب علمی کے دنوں سے اقتصادیات اور صحافت کے اصولوں اور اقدار پر تربیت دی تھی۔
ملک کا معروف معاشی روزنامہ بننے کی وراثت سینئر اینڈ سنز کے وراثتی کام کی اخلاقیات اور وژن میں سموئی ہوئی ہے، یہ قطعا حیران کن نہیں کیوں کہ بڑے صاحب قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
بی آر میں اپنے ابتدائی سالوں کے دوران میں ان پر سادہ سوالات کی بوچھاڑ کرتا تھا، جس کی ایک وجہ میرے تجربے کی کمی تھی جس کا جواب وہ اپنے تجربے، اس مسئلے کے پیچھے موجود تاریخی اور سیاسی سیاق و سباق کے ساتھ صبر و تحمل سے دیتے تھے جس سے میرا سیکھنے کا تجربہ محض معلومات اور علم تک محدود نہ رہتا بلکہ اس سے بھی بڑھ جاتا تھا۔
اس سے پہلے کہ ان کی صحت نے ان کے لئے اس عہدے کو برقرار رکھنا مشکل اور بعد میں ناممکن بنا دیا ، تقریبا ہر وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر معیشت کے اہم معاملات پر ان کی رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ بہت سے بینک صدور، کارپوریٹ سی ای اوز اور بڑے کاروباری مالکان معیشت سے متعلق اہم فیصلوں میں مشورہ مانگتے تھے۔ وہ نجی فرموں، حکومت اور اسٹیٹ بینک کے مشیروں میں سی لیول کے عہدوں پر ملازمت کی سفارش اور سہولت فراہم کرتے تھے۔ وہ مشیر خزانہ اور دیگر افراد خاص طور پر بیرون ملک سے آنے والوں کے لیے بہترین شخصیت تھے کیونکہ انہیں زمینی حقائق اور پاکستان کی ہمیشہ کے لیے مشکلات کا شکار معیشت کو درپیش سیاسی چیلنجز کے بارے میں رہنمائی کی ضرورت تھی۔
جناب ارشد اے زبیری ایک عظیم ثالث رہے اور اپنے دفتر سے ٹیکس کی پالیسی اور دیگر مسائل حل کرتے تھے، حکومتی افسران اور تاجروں سے لیکر وہ مرکزی بینک اور بینک کے ایگزیکٹوز کے درمیان ایک پل بن کر پاکستان کے اقتصادی فیصلوں میں اہم کردار ادا کرنے والے شخص تھے۔
میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے ان کی موجودگی میں ان میں سے بہت سی ملاقاتوں کا مشاہدہ کیا اور ان ملاقاتوں میں سیکھنے کے مواقع ملنے پر ہمیشہ کیلئے شکرگزار ہوں وہ صرف کنگ میکر نہیں تھے بلکہ ایک بے تاج بادشاہ تھے۔
وہ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، ایس او ایز کی نجکاری اور کارپوریٹائزیشن اور مانیٹری پالیسی سازی میں مرکزی بینک کی آزادی سمیت معاشی اصلاحات کے بڑے حامی تھے۔ وہ مختلف اعلیٰ سطحی کمیٹیوں اور مشاورتی کونسلوں کا حصہ تھے۔
انہوں نے میڈیا کی آزادی کے دور میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ وہ پاکستان براڈکاسٹ ایسوسی ایشن (پی بی اے) کے بانیوں میں سے ایک تھے اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) کا فعال حصہ تھے۔
ایک انتہائی ذہین اور نفیس انسان، مسٹر زبیری ایک ماہر مصنف اور صبر سے سننے والے شخص تھے، جو فن مزاح کا لطیف احساس بھی رکھتے تھے۔ ان کے دفتر کی پانچویں منزل پر ریکارڈر ہاؤس کی دیوار پر یہ تحریر آویزاں ہے: ”میں خود بھی تھوڑا بہت بکواس کرتا ہوں، آپ بھی کرلیں کیونکہ میں سن رہا ہوں۔“
وہ بزنس ریکارڈر گروپ کے مالکان میں سے ایک تھے، لیکن ہمیشہ ملازمین کا احترام کرتے تھے اور ایک عظیم ٹیم ممبر تھے، جن کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا عاجزانہ اور متواضع رویہ تھا۔ بینکوں کے سی ای اوز، وزرائے خزانہ، مشیروں اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ان کے مزاج پر منفی اثرات مرتب نہ کرسکا۔
در حقیقت، میں باقاعدگی سے ان سے درخواست کیا کرتا تھا کہ مجھے ان اہم شخصیات سے متعارف کرائیں تاکہ میں اپنے مضامین کے لیے ان کی رائے حاصل کر سکوں، اور وہ ہمیشہ فون اُٹھا کر مجھے تعارف کروا دیتے تھے۔ کبھی کبھار وہ مذاق کرتے ہوئے کہتے، ”علی، میں تمہارا ٹیلیفون آپریٹر نہیں ہوں“، اور پھر اپنی ہنستی آنکھوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کال جاری رکھتے۔
وہ حقیقی معنوں میں اصلاح کرنے والے اور پاکستان کی معیشت کے پھلنے پھولنے کی بڑی خواہش اور وژن رکھتے تھے۔ وہ چلے گئے لیکن ان کا کام اور الفاظ زندہ و جاوید ہیں۔ میری دعا ہے کہ جو لوگ اہم ہیں وہ ان قیمتی اسباق اور مشورے سے سیکھیں جو انہوں نے ملک کی معیشت میں اپنی وراثت اور گرانقدر خدمات کے طور پر چھوڑے ہیں۔
Comments