شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی (سانا) نے ہفتے کے روز بتایا ہے کہ شام کے نئے حکمرانوں نے بین الاقوامی تعلقات استوار کرنے کی کوششیں تیز کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا تقرر کیا ہے۔
حکمران جنرل کمانڈ نے اسد حسن الشیبانی کو وزیر خارجہ نامزد کیا ہے۔ نئی انتظامیہ کے ایک ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ اقدام شامی عوام کی خواہشات کے عین مطابق اٹھایا گیا ہے تاکہ ایسے بین الاقوامی تعلقات قائم کیے جاسکیں جس کی بدولت امن و استحکام ممکن ہو۔
اسد حسن شیبانی کے بارے میں فوری طور پر کوئی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔
شام کے ڈی فیکٹو حکمران احمد الشراء اقتدار سنبھالنے کے بعد سے غیر ملکی وفود کے ساتھ فعال طور پر مصروف رہے ہیں جن میں اقوام متحدہ کیلئے شام کے سفیر اور سینئر امریکی سفارت کاروں کی میزبانی بھی شامل ہے۔
احمد الشراء نے بین الاقوامی سفیروں کے ساتھ سفارتی طور پر بات چیت کرنے پر آمادگی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی بنیادی توجہ تعمیر نو اور اقتصادی ترقی کے حصول پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کسی نئے تنازعے میں ملوث ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
امریکہ، دیگر مغربی طاقتیں اور بڑی تعداد میں شامی شہری بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے والے الشراء کے زیر قیادت گروپ حیات تحریر الشام کی کامیابی پر خوش تھے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ گروپ سخت اسلامی حکومت نافذ کرے گا یا لچک دکھا کر جمہوریت کی طرف بڑھے گا۔ ایچ ٹی ایس 2016 تک القاعدہ کا حصہ تھی تاہم اس کے بعد الشراء نے القاعدہ سے تعلقات ختم کردیے تھے۔
شامی باغیوں نے 8 دسمبر کو دمشق پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد بشار الاسد 13 سال سے زائد عرصے کی خانہ جنگی کے بعد فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے اور ان کے خاندان کی دہائیوں پر محیط حکمرانی کا خاتمہ ہوا تھا۔
شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں باغیوں کے ایک علاقے پر حکومت کرنے والی افواج نے تین ماہ تک نگران حکومت قائم کی جو ابو محمد الجیلانی کے نام سے مشہور ہے۔
واشنگٹن نے 2013 میں الشراء کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عراق میں القاعدہ نے اسے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے اور شام میں اسلامی شرعی قانون کے قیام کی ذمہ داری سونپی تھی۔ جمعے کے روز امریکی حکام نے کہا تھا کہ واشنگٹن الشراء کے سر کی مقررہ کردہ ایک کروڑ ڈالر کی رقم کا اعلان واپس لے لے گا۔
اس جنگ میں لاکھوں افراد مارے گئے اور دور جدید میں نقل مکانی کا سب سے بڑا بحران پیدا ہوا۔ دوران جنگ کئی شہر ملیا میٹ ہوگئے جبکہ عالمی پابندیوں کی وجہ سے معیشت کھوکھلی ہو گئی۔
Comments