گیس کی فراہمی کا انتظام مکمل طور پر بگڑچکا ہے۔ درآمد شدہ آر ایل این جی وافر مقدار میں موجود ہے جبکہ مقامی گیس کی پیداوار میں کمی آئی ہے اور ملک بھر میں گھریلو صارفین شدید لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال سطح پر دیکھنے پر بظاہر بے وقعت اور غیر منطقی نظر آتی ہے۔

تاہم اس افراتفری کے پیچھے ایک وجہ موجود ہے۔ گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث گزشتہ چند سالوں میں طلب میں کمی واقع ہوئی۔ گرڈ کی طلب میں کمی کے نتیجے میں پاور سیکٹر کی آر ایل این جی کی طلب میں بھی کمی آئی ہے۔

سردیوں کے علاوہ کے مہینوں کے دوران گیس کی مجموعی طلب مقامی گیس کی پیداوار اور درآمد شدہ آر ایل این جی دونوں سے کم ہے۔ ملک میں اسٹوریج کی سہولت موجود نہیں ہے جب کہ پائپ لائن سسٹم کی گنجائش بھی انتہائی محدود ہے، لہٰذا مقامی پیداوار میں کمی کرکے یا درآمدات کو کم کرکے سپلائی کو کم کرنا ضروری ہے۔

حقیقی حل یہ ہے کہ کم آر ایل این جی کارگو کی درآمد کی جائے۔ تاہم، حکومت مقامی پیداوار کو اس لیے کم کررہی ہے کیونکہ ایل این جی سپلائر (قطر) کے ساتھ طویل المدتی معاہدے کیے گئے ہیں۔ یہ افسوسناک صورتحال ناقص منصوبہ بندی اور ناقص فیصلہ سازی کا نتیجہ ہے۔

ضرورت سے زیادہ پاور پلانٹس کی تنصیب کے نتیجے میں آر ایل این جی کی درآمد میں اضافہ ہوا، تاہم اس کے ساتھ کم مارجنل لاگت والے پاور پلانٹس بھی نصب کئے جا رہے ہیں۔ مجموعی طلب میں کمی آئی ہے اور پاور سیکٹر میں گیس کی مانگ کم ہوگئی ہے۔ زیادہ تر وقت مہنگی آر ایل این جی سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے جب کہ کم لاگت والے کوئلے کے استعمال کو محدود کر دیا گیا ہے۔

یہ مسئلہ کا نصف حصہ واضح کرتا ہے۔ تاہم، سوال ابھی تک یہ ہے کہ سردیوں کے مہینوں میں گھریلو صارفین کو گیس کی لوڈ شیڈنگ کیوں جھیلنی پڑتی ہے۔ اس کا جواب ایک منصوبہ بندی میں پوشیدہ ہے۔ گھریلو ٹیرف کم رکھے گئے ہیں اور ان کو دوسرے صارفین، بشمول صنعتی کیپٹیو صارفین، کے ذریعے سبسڈی دی جا رہی ہے۔

سردیوں کے مہینوں میں اضافی سپلائی کے متوازی دیگر ذرائع سے اتنی زیادہ مانگ نہیں ہوتی کہ اس کا تدارک کیا جا سکے۔ لہٰذا، نقصانات کو کم کرنے کے لیے سوئی کمپنیز — خاص طور پر شمالی علاقوں میں — کم قیمت دینے والے صارفین کو سردیوں میں کم سپلائی کرتی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر گھریلو صارفین کو مکمل گیس فراہم نہیں کی جارہی کیونکہ وہ کم قیمت ادا کرتے ہیں اور اضافی سپلائی سوئی کمپنیز کے لیے مزید نقصانات کا باعث بنتی ہے، تو اس سے گیس کے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوگا۔ دوسری وجہ ہائی سسٹم لائن لاسز کو کم کرنا ہے۔ پائپ لائن کا بنیادی ڈھانچہ پرانا اور غیر مؤثر ہے اور اس میں زیادہ لیکیج کی شرح ہے۔ جیسے ہی سپلائی بڑھتی ہے، لیکیج کی شرح بھی بڑھتی ہے۔ انفرااسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لیے کوئی مالی گنجائش موجود نہیں ہے۔

اس طرح سردیوں میں سپلائی کم کی جاتی ہے۔ اگر 2025 کے جنوری سے آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق کیپٹیو پاور پلانٹس کو مکمل طور پر گیس کی فراہمی بند کر دی جاتی ہے، تو یہ مسئلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس سے مقامی گیس کی پیداوار میں 200-250 ایم ایم سی ایف ڈی کی نمایاں کمی ہو گی۔ گیس کمپنیاں اپنی آمدنی میں کمی کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کریں گی، جس کے نتیجے میں دوسرے صارفین، خاص طور پر گھریلو صارفین، کے لیے ٹیرف میں مزید اضافہ ہو گا۔ حالیہ 8.7 فیصد کا اضافہ کافی نہیں ہوگا۔

آخری بات یہ ہے کہ حکومت جنوری سے آر ایل این جی کی سپلائی کم کرنے کا کریڈٹ لے رہی ہے، کیونکہ وزیر کے مطابق قطر اور اینی سے ہر سال5 کارگو کم کیے جائیں گے۔ اس طرح 120 کارگو کے بجائے سپلائی 110 کارگو تک محدود ہو جائے گی، یعنی تقریباً 9 کارگو ہر ماہ کم ہوں گے۔ اس کا مقصد 100 ایم ایم سی ایف ڈی کی کمی لانا ہے۔ یہ موجودہ اضافی سپلائی کو جزوی طور پر کم کر سکتا ہے، لیکن یہ کیپٹیو پاور پلانٹس کو فراہم کی جانے والی گیس کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔

Comments

200 حروف