اداریہ

جان لیوا سفر

14 دسمبر کو یونان کے جزیرے گاوڈوس کے قریب درجنوں غیر قانونی تارکین وطن کو لے جانے والی ایک کشتی کے الٹ جانے سے پانچ...
شائع December 19, 2024

یونانی جزیرے گاوڈوس کے قریب 14 دسمبر کو غیر قانونی تارکین وطن سے بھری ایک کشتی کے الٹنے کے باعث پانچ جانوں کے ضیاع کا واقعہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ انتہائی غربت، تنازعہ، ظلم و ستم، ناقص حکمرانی اور اسمگلنگ کے ذریعے انسانوں کے استحصال کرنے والوں کا مجموعہ لوگوں کو اپنے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر کی امید میں انتہائی خطرناک سفر کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

حادثے میں 4 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی گئی جبکہ 47 کو بچا لیا گیا جن میں سے 43 کا تعلق گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے اضلاع سے تھا۔ اطلاعات کے مطابق کشتی میں سوار بیشتر مسافر پاکستانی شہری تھے۔

اس راستے کی مقبولیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اسی دن دو دیگر کشتیوں سے سو سے زائد افراد کو بچا لیا گیا جو گاوڈوس پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے، اور یہ تمام کشتیوں کا آغاز لیبیا سے ہوا تھا۔

یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جنگ زدہ اور تنازعات سے متاثرہ ممالک جیسے کہ شام اور لیبیا کے لوگ ظلم و ستم اور یقینی موت کے خطرے سے بچنے کے لیے اس خطرناک سفر کا آغاز کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت کہ ہر سال ہزاروں پاکستانی بھی اپنی جانوں کو اسی طرح خطرے میں ڈالتے ہیں۔ یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ معاشی مشکلات، بیروزگاری، مواقع کی کمی اور مایوسی وہ مسائل ہیں جو لاکھوں شہریوں کی روزمرہ کی حقیقت بن چکے ہیں۔

یہ شرمناک صورتحال حکمرانی، اقتصادی منصوبہ بندی اور سماجی امداد کے نظاموں کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے جو مایوس اور بے یقینی کے شکار شہریوں کو بہتر زندگی کی تلاش میں ایسے خطرناک اور غیر محفوظ راستوں کی طرف دھکیل رہی ہیں۔

غیر یقینی معاشی حالات، سیاسی عدم استحکام اور حالیہ برسوں میں ملک کی سمت کے بارے میں عمومی مایوسی نے نسبتا خوشحال پاکستانیوں کو بھی بیرون ملک پرکشش مقامات تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے، جس میں قانونی راستوں کے ذریعے نقل مکانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو پھر یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہمارے درمیان سب سے زیادہ غریب افراد — جو اقتصادی یا سماجی ترقی کے حوالے سے بہت کم امکانات دیکھتے ہیں اور قانونی طور پر ہجرت کرنے کے لیے تقریباً کوئی موقع نہیں پاتے — اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مایوس کن اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوں۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے مطابق 2023 میں 6 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے یورپی ساحلوں تک پہنچنے کے لیے غیر قانونی سفر کیا جس کی بنیادی وجہ معاشی محرومی تھی۔

تاہم ہمارے حکمران اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار نظر نہیں آتی، کیونکہ یہ بدعنوانی، نااہلی اور اقتدار کے حصول کیلئے چھوٹے موٹے جھگڑوں میں متبلا ہیں اور حکمرانوں کی توجہ معاشی اصلاحات پر مرکوز نہیں جن سے عوام کی اکثریت کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زیادہ توجہ ان اقدامات اور پالیسیوں پر مرکوز ہے جو چند طاقتور افراد کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں جس کے نتیجے میں عدم مساوات، غربت اور سماجی بد امنی کا سلسلہ مزید مضبوط ہوتا ہے۔

مسئلہ اس بات سے مزید بڑھ جاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مجرمانہ غفلت سے انسانی اسمگلنگ کی مذموم سرگرمیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ تارکین وطن سے متعلق تحقیقات گروپ مکسڈ مائیگریشن سینٹر کے 2022 کے ایک سروے کے مطابق حالیہ برسوں میں اٹلی پہنچنے والے پاکستانیوں میں سے تقریباً 90 فیصد نے انسانی اسمگلر کا سہارا لیاجو اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ اسمگلروں کا کردار غیر قانونی نقل مکانی کی سہولتکاری میں کس قدر پھیل چکا ہے۔

اسمگلرز پسماندہ قصبوں اور دیہاتوں کو ہدف بناتے ہیں جہاں وہ شہریوں کو یورپ میں آسانی کامیابیوں کے جھانسے دیکر ان سے ہزاروں ڈالر بٹورتے ہیں۔ نتیجا جھانسے میں آکر متعلقہ خاندان قرض اٹھا کر اسمگلروں کو ادائیگی کرتے ہیں اور پھر بڑے قرضوں میں ڈوب جاتے ہیں۔

حکومتی ردعمل بنیادی طور پر ایف آئی اے کی طرف سے وقتاً فوقتاً کچھ اسمگلرز کی گرفتاری تک محدود رہا ہے، لیکن جو چند مقدمات چلائے گئے ہیں ان میں مقامی سطح کے مڈل مین کو نشانہ بنایا گیا جبکہ مبینہ طور پر ملوث طاقتور حکومتی عہدیدار اور اسمگلنگ کے بڑے سرغناؤں کو سزا نہیں دی گئی۔

یونان کے ساحل کے قریب میسینیا تارکین وطن کی کشتی کے حادثے کے ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انسانی اسمگلنگ ایک پھلتا پھولتا کاروبار ہے۔

صرف اس بدعنوانی کے خلاف قوانین بنانا واضح طور پر ناکافی ثابت ہوا ہے، کیونکہ ان قوانین کا نفاذ نہایت ناقص رہا ہے اور اس کے جڑ کے اسباب — اقتصادی مایوسی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی، حکومتی حلقوں میں بدعنوانی — ابھی تک حل نہیں کیے گئے ہیں۔ نتیجتاً، سب سے زیادہ کمزور پاکستانی عوام اس نظام کے ہاتھوں مسلسل تکالیف جھیل رہے ہیں جو مکمل طور پر ان کی مدد کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔

Comments

200 حروف