توانائی شعبے کی کمپنیوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے مالی سال 2024 کے دوران خزانے کو 660 ارب روپے کا نقصان ہوا، حالانکہ بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا تھا۔ ان میں سے 281 ارب روپے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن (ٹی اینڈ ڈی ) کے نقصان کی وجہ سے ہیں جو مقررہ حد سے زیادہ ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ان نقصانات میں واحد نجی ادارے کے الیکٹرک (کے ای) کا حصہ صرف 2 فیصد ہے جب کہ بجلی کی تقسیم میں اس کا حصہ 16 فیصد ہے۔

یہ صرف نجکاری کے فوائد کو نمایاں کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ توانائی شعبے میں جامع اصلاحات کے نفاذ کے لیے تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری انتہائی ضروری ہے۔

نجی ادارے جیسے کے الیکٹرک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں، جبکہ حکومتی ملکیت والی ڈسکوز صرف لاگت کے مراکز کے طور پر کام کرتی ہیں۔ نجی کمپنیوں کو راغب کرنے کیلئے کے الیکٹرک کے ساتھ منصفانہ سلوک ضروری ہے کیوں کہ یہ ملک کے کاروباری مرکز کراچی میں بجلی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

کسی بھی دوسری یوٹیلیٹی کمپنی کی طرح کے الیکٹرک کو بھی کاروباری اخراجات کا سامنا ہے، مگر وصولی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ کےالیکٹرک کو نیپرا (پاکستان توانائی ریگولیٹری اتھارٹی) سے سات سالہ مدت کے لیے 68 ارب روپے کے رائٹ آفز کی منظوری حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے،جیسا کہ اس کے ملٹی ایئر ٹیرف (ایم وائی ٹی) سے متعلق حالیہ سماعت میں زیر بحث آیا تھا۔

دنیا بھر میں کوئی بھی کاروبار آپریٹنگ نقصانات یا بیڈ ڈیبٹس کے لیے پروویژن کے بغیر نہیں چلتا۔ تاہم، نیپرا توانائی کمپنیوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے بل کی رقم کا 100 فیصد وصول کریں، جو ایک غیر حقیقت پسندانہ توقع ہے۔ ۔ صوبائی حکومتوں پر بجلی کی یوٹیلٹی کمپنیوں کے واجب الادا بلوں کی مد میں 90 ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔

توانائی کمپنیوں کو مختلف صوبوں کے محکموں کی عدم ادائیگی کی بنا پر بجلی کی فراہمی منقطع کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس لغاری نے اس بھاری بقایا رقم کی وصولی کے لیے وزرائے اعلیٰ سے مدد طلب کی ہے تاکہ اس مالی بحران پر قابو پایا جا سکے۔

انڈسٹری ذرائع کے مطابق تمام ڈسکوز کی وصولی کی شرح کم ہے، اور یہ نقصانات آخرکار حکومت پاکستان کو برداشت کرنے پڑتے ہیں، جو بدنام زمانہ گردشی قرض میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، جو اب صنعتی ذرائع کے مطابق 2.8 کھرب روپے سے زائد ہو چکا ہے۔ اس قرض کی ادائیگی کا ایک حصہ صارفین پر منتقل کیا جاتا ہے اور اس وقت پورے پاکستان میں فی یونٹ 3.23 روپے چارج کیے جا رہے ہیں۔

کے الیکٹرک کا گردشی قرضے میں کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ اس کے شیئر ہولڈرز تمام متعلقہ اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ تاہم، کے-الیکٹرک کے صارفین پر اب بھی اضافی سرچارجز کا بوجھ ہے، جو کمپنی اور صارفین دونوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔ حالیہ سماعت کے دوران، کے-الیکٹرک کی رائٹ آفز کی درخواست نہ صرف سامعین بلکہ ریگولیٹر کی طرف سے بھی مسترد کر دی گئی۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بجلی حاصل کرنا ان کا فطری حق ہے، بغیر اس کی قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے بہت سے رہائشی پانی جیسے بنیادی ضرورت کے لیے بھاری رقم ادا کرنے کو تیار ہیں، مگر بجلی کو مفت حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ رویہ پبلک سیکٹر کمپنیوں میں تو برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن نجی شیئر ہولڈرز کے لیے یہ پائیدار نہیں ہے۔

اس کے باوجود کراچی کے صارفین ملک میں بجلی کے سب سے زیادہ نرخ ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ وفاقی معاہدوں پر ناقص مذاکرات، کمزور ٹرانسمیشن سسٹم اور پبلک سیکٹر یوٹیلیٹیز کی بدانتظامی ہے۔ انہیں ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں چوری کی شرح زیادہ ہے اور وہاں بہت سے صارفین اپنے بلوں کی بروقت ادائیگی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

کراچی میں کنڈا سسٹم کو ختم کرنے کے باوجود، کے-الیکٹرک کی تمام صارفین سے بل وصولی کی صلاحیت متاثر ہے، کیونکہ وہاں کچی آبادیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزور صورتحال ہے۔ بلوں کی وصولی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے جب تک کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون نہ ہو، جو اکثر سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ میں ہوتے ہیں اور توانائی چوروں کا تحفظ کرتے ہیں۔

یوٹیلٹی کمپنی سے یہ توقع رکھنا غیر منصفانہ ہے کہ وہ پولیسنگ ایجنسی کے طور پر کام کرے گی ، حالانکہ یہ چوری کو روکنے کے لئے ٹیکنالوجی اور دیگر اقدامات کا استعمال کرتی ہے۔ تاہم، چوری کا مکمل خاتمہ تقریبا ناممکن ہے.

مثالی حل یہ ہے کہ وصولی کی ایک معقول سطح کو تسلیم کیا جائے اور جائز رائٹ آفز کی منظوری دی جائے۔ ان اقدامات کے بغیر، تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری خواب بن کر رہ جائے گی، سرکلر قرض بڑھتا رہے گا، اور صارفین کے ٹیرف میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف