حکام کا کہنا ہے کہ شورش زدہ ضلع کرم میں انسانی بحران مسلسل بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ ہفتہ کے روز ضروری اور زندگی بچانے والی ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مزید چار معصوم بچے شہید ہو گئے۔

پشاور اور اس سے ملحقہ اضلاع کی طرف جانے والی مرکزی پارا چنار شاہراہ کی طویل بندش کی وجہ سے پریشان حال ضلع کی دس لاکھ سے زائد آبادی چند ماہ سے تکلیف دہ زندگی گزار رہی ہے کیونکہ یہ ضروری ادویات اور صحت کی سہولیات سے محروم ہے۔

پارا چنار اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر میر حسن جان نے اسپتال میں داخل مزید 6 بچوں کی موت کی تصدیق کی ہے جس کے بعد گزشتہ دو ماہ کے دوران جاں بحق ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد 15 ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر میر حسن جان نے نشاندہی کی کہ یہ اموات مناسب طبی وسائل اور ضروری ادویات کی کمی کی وجہ سے ہوئیں۔

دو ماہ سے زیادہ عرصے سے راستوں کی بندش نے علاقے کے دس لاکھ رہائشیوں کو پھنسا دیا ہے۔ صحت کی خدمات کے علاوہ سڑکوں کی بندش اور قبائلی جھڑپوں کی وجہ سے فوڈ سپلائی چین بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق ضروری ادویات کی قلت اور اہم سڑکوں کی بندش کے باعث تویشناک حالت میں مبتلا بچے اسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئے۔ صحت کے حکام نے متنبہ کیا ہے کہ اگر عملی اور مخلصانہ اقدامات نہ کیے گئے تو انسانی بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔

پشاور پاراچنار ہائی وے کی طویل بندش نے ضلع میں بحران کو مزید بڑھا دیا ہے کیونکہ پاک افغان سرحد اور اپر کرم کے قریب دیہاتیوں کو ایندھن، نقل و حمل، خوراک کی فراہمی اور معیاری صحت کی خدمات کی شدید قلت کے سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔

کوآرڈینیٹر مقامی ایچ آر سی پی چیپٹر عظمت علی زئی نے ضلع کرم میں بحران جیسی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کو خوراک، صحت، ادویات اور دیگر سہولیات جیسی بنیادی ضروریات کی اشد ضرورت ہے۔ عظمت علی زئی نے سیکیورٹی فورسز اور قافلوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جس کی وجہ سے شاہراہ مسلسل بند ہے۔ عظمت علی زئی نے اعلیٰ حکام پر زور دیا کہ وہ علاقے میں خوراک اور ضروری ادویات کی شدید قلت کو دور کریں۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو سخت سردی کے موسم میں مقامی باشندوں کی مشکلات اور ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف