وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے مدارس کی رجسٹریشن بل پر اٹھائے گئے اعتراضات مکمل طور پر آئینی اور قانونی ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ان اعتراضات میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی ان کا اس سے کوئی تعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئینی اور قانونی معاملات کو سیاسی رنگ دینا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کو ایف اے ٹی ایف سے جوڑنا مکمل طور پرمن گھڑٹ خیال اور قیاس آرائیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں قانون سازی کے لئے مکمل طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ صدر جمہوریہ نے آئین کے مطابق اعتراض کیا ہے اور پارلیمنٹ بھی اسی جذبے کے ساتھ اس میں اصلاح کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ان قیاس آرائیوں کا مقصد صدر اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو نشانہ بنانا ہے، انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ اس معاملے میں صرف تنقید برائے تنقید سے گریز کریں۔

اس سے پہلے صدر آصف علی زرداری نے سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) بل 2024 (مدارس کی رجسٹریشن) پر اعتراضات اٹھائے تھے کہ قوانین پہلے سے موجود ہیں اور نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے اور اس سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) جیسی تنظیموں سے پاکستان کی درجہ بندی متاثر ہوگی۔

ذرائع کے مطابق مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق موجودہ قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے صدر مملکت نے نشاندہی کی کہ نیا قانون غیر ضروری ہے کیونکہ دو قوانین پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ٹرسٹ ایکٹ 2020 پہلے سے موجود ہیں۔

صدر مملکت نے متنبہ کیا کہ اس قانون کے تحت مدارس کو رجسٹر کرنے سے فرقہ واریت کو فروغ مل سکتا ہے اور ایک ہی معاشرے کے اندر متعدد مدرسوں کی تعمیر کی وجہ سے امن و امان میں خلل پڑ سکتا ہے۔

دریں اثنا جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایوان صدر اور صدر(مملکت) پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے پہلے ہی منظور شدہ بل پر اعتراض ات اٹھا کر غیر ضروری طور پر الجھن پیدا کر رہے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سیاست میں مدارس کی رجسٹریشن پر بحث ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل کے مسودے کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سابقہ حکومت کے دوران حتمی شکل دی گئی تھی جس کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اس کی متفقہ منظوری دی تھی۔

Comments

200 حروف