حکومتی بنچ کی رکن طاہرہ اورنگزیب کے سوال کے جواب میں وزارت خزانہ نے تحریری طور پر جواب دیا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے استحکام پروگرام کے تحت حکومت نے طویل عرصے سے زیر التواء یوٹیلٹی قیمتوں (بجلی اور گیس) میں اضافہ کیا ہے - نومبر 2023 میں گیس کی قیمتوں میں 520 فیصد اور فروری 2024 میں مزید 319 فیصد اضافہ ہوا جبکہ نومبر 2023 میں بجلی کے نرخوں میں 35 فیصد اور فروری 2024 میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔
یہ غیر معمولی اضافہ بالآخر مالی سال 2024 میں مجموعی افراط زر میں نمایاں اضافہ کا سبب بن گیا۔ اگرچہ یہ معلومات عمومی طور پر معلوم تھیں، وزارت کی جانب سے استعمال کی گئی زبان تین پریشان کن نکات کو اجاگر کرتی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سیاسی وجوہات کی بنا ء پر بجلی یا گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے میں ہچکچاہٹ تمام حکومتوں کی پہچان رہی ہے۔ یاد رہے کہ 2018 میں اس وقت کی نومنتخب حکومت آئی ایم ایف کے قرضے کی شرط کے طور پر یوٹیلیٹی ٹیرف میں 100 فیصد سے زائد اضافہ کرنے پر مجبور ہوئی تھی کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے ٹیرف میں اضافہ نہیں کیا تھا۔
یاد رہے کہ سال 2022 میں پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکومت نے ٹیرف کو برقرار رکھا تھا جبکہ روس یوکرین جنگ کے بعد گیس اور ایندھن کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا جو کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر تھا۔ مارچ 2022 سے لے کر اگست 2023 کے وسط تک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت برسر اقتدار تھی اور چونکہ وزارت کا تحریری بیان نومبر 2023 سے فروری 2024 تک کے نرخوں میں اضافے سے متعلق ہے، اس لیے یہ سیاسی طور پر مشکل فیصلہ نگران حکومت کے دوران کیا گیا۔
تمام سیاسی جماعتوں کے لئے سبق واضح ہے: تاخیر صرف صارف پر لاگت بڑھاتی ہے اور اس کے ساتھ سیاسی اثرات بھی زیادہ ہوتے ہیں، سوائے اس کے کہ معیشت مستحکم ہو اور امدادی فنڈز پر انحصار نہ ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ کئی دہائیوں پر محیط، شہری اور فوجی انتظامیہ کے دوران توانائی، ایندھن اور ٹیکس کے شعبوں میں ساختی اصلاحات کے نفاذ میں مسلسل ناکامی، تمام شعبوں میں گورننس میں واضح گراوٹ اور غیر ترقیاتی اخراجات میں مسلسل اضافہ، جس کے نتیجے میں ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر بڑھتا ہوا انحصار،آج معیشت کی ایسی حالت کا سبب بنا ہے جو انتہائی نازک ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساختی کمزوریاں اور بیرونی مالی معاونت میں گہرا فرق آج کے ڈونر پروگراموں کی سختی اور جمود کا باعث بن چکا ہے۔ ان پروگراموں کی موجودہ پالیسیوں کی وجہ سے، صارف ٹیرف میں اضافے کے ذریعے مکمل لاگت کی بازیابی کے اقتصادی طور پر مناسب ہدف کو حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش کو قبول نہیں کیا جا رہا۔
پاکستانی مذاکرات کار یقیناً یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ وہ بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات میں زبردست کمی لائیں گے (جو اس سال 21 فیصد بڑھائے گئے ہیں)، جس کے نتیجے میں اس سال ٹیکس وصولیوں میں 40 فیصد اضافے کا غیر حقیقت پسندانہ ہدف کم ہو جائے گا، اس طرح آئی ایم ایف کے ساتھ اپنی پوزیشن مضبوط کر کے ٹیرف میں اضافے کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکیں گے۔
بدقسمتی سے، یہ حکومت پچھلی حکومتوں کی طرح اسی طریقہ کار پر عمل پیرا ہے، خاص طور پر عوام پر اضافی بوجھ ڈالنا، حالانکہ عوام کی اضافی بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 41 فیصد پاکستانی اب غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تیسری بات یہ کہ وزارت کے تحریری جواب کے مطابق ٹیرف میں اضافہ مہنگائی کا سبب بن رہا ہے۔ امید کی جاتی تھی کہ جواب میں یہ بھی ذکر کیا جاتا کہ دیگر بجٹ اقدامات جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے، بشمول کرنٹ اخراجات کے لیے 90 فیصد سے زائد کی مختص رقم جو قرضے کے ذریعے فنڈ کی گئی اور جس کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات (جو ترقی کو بڑھاوا دینے والے اخراجات ہوتے ہیں) میں کمی آئی، وہ بھی مہنگائی میں اضافے کے اہم عوامل تھے۔
یہ واضح ہے کہ مہنگائی حکومت کی پالیسی فیصلوں کا نتیجہ ہے، چاہے وہ ڈونر کی شرائط ہوں (یہ معیشت کی نازک حالت کی وجہ سے مسلسل چوتھے سال کے لیے قبول کی گئی ہے — جو پچھلی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے) یا اندرونی اصلاحات کے تشکیل اور نفاذ میں ناکامی (جو آج بھی جاری ہے، حالانکہ اس کے برعکس وعدے کیے گئے تھے)۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments