پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے منگل کو بتایا ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) فیض حمید پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزیوں، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور کسی شخص (افراد) کو طریقے سے نقصان پہنچانے کے الزامات پر باقاعدہ فرد جرم عائد کردی گئی ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف 12 اگست 2024 کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) کا آغاز کیا گیا تھا۔

پاک فوج کے ترجمان ادارے نے بتایا کہ کارروائی کے دوران لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ریٹائرڈ) کے ہنگامہ آرائی اور بدامنی پیدا کرنے کے حوالے سے واقعات میں ملوث ہونے کو اجاگر کیا گیا جن میں 9 مئی 2023 کا واقعہ بھی شامل ہے، جس کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی؛ یہ سب کچھ سیاسی مفادات کے تحت اور ان کے ساتھ ملی بھگت میں کیا گیا۔ اس معاملے کی علیحدہ سے تحقیقات بھی جاری ہیں۔

بیان کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو قانون کے مطابق تمام قانونی حقوق دیے جا رہے ہیں۔

رواں سال اگست میں آئی ایس پی آر نے اعلان کیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے اور سابق اسپائی چیف کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج کی جانب سے ایک جامع تحقیقات کی گئیں تاکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں کی گئی شکایات کی صداقت کا پتہ لگایا جا سکے۔

بیان کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت تادیبی کارروائی شروع کی گئی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جنرل فیض کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

فیض حمید خبروں میں

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید جنہوں نے دسمبر 2022 میں ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی، کچھ عرصے سے اکثر متنازع وجوہات کی بنا پر خبروں میں رہے ہیں۔ وہ ان چھ سینئر جنرلز میں شامل تھے جن کا نام جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) نے 2022 میں آرمی چیف کے عہدے کے لیے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

فیض حمید 2019 سے 2021 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور عالمی سطح پر اس وقت سرخیوں میں آئے جب انہیں 2021 میں امریکی اور دیگر مغربی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے افغانستان پر قبضہ کرنے کے فورا بعد کابل کے ایک ہوٹل کی لابی میں چائے پیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

ریٹائرمنٹ سے قبل حمید وہ بہاولپور اور پشاور کور کے کمانڈر رہے۔ انہیں مبینہ طور پر عمران خان کی سابقہ حکومت کی حمایت کرنے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاسی اپوزیشن کو نشانہ بنانے پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

مئی 2023 میں، فیصل واوڈا، ایک سابق وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق اسپائی چیف فیض حمید، پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کے حوالے سے درپیش کرپشن کیس کے ”آرکیٹیکٹ“ اور ”ماسٹر مائنڈ“ تھے۔

فیصل واوڈا نے اس وقت اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ فائدہ اٹھانے والا عمران خان ہے تو آج قوم کو بتانا میری مجبوری ہے کہ سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا فیض حمید ہے۔

رواں سال مارچ میں محکمہ اینٹی کرپشن نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی اور سابق ڈپٹی تحصیلدار سردار نجف حمید کو بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔

نجف حمید کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب اینٹی کرپشن عدالت کے جج علی نواز بھکر نے عدالت میں دیر سے پہنچنے پر ان کی ضمانت مسترد کردی۔

اسی طرح فیض حمید کو اس سال کے اوائل میں فیض آباد دھرنا کیس کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے انکوائری کمیشن نے بری کر دیا تھا۔ نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان سمیت سیاسی جماعتوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر تقریبا تین ہفتوں تک احتجاج کیا اور دھرنا دیا تھا۔ احتجاج کرنے والی جماعتوں اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد احتجاج ختم ہوگیا۔ اطلاعات کے مطابق اس معاہدے پر فیض حمید نے دستخط کیے تھے۔

Comments

200 حروف