اسد حکومت کا خاتمہ: شام میں پاکستانی شہری محفوظ، محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے، دفترخارجہ
- دمشق پر باغیوں کے قبضے کے بعد شام میں بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار ختم ہو گیا
پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ شام میں پاکستانی شہری محفوظ ہیں جہاں شامی باغیوں کی جانب سے دمشق پر قبضے کے بعد شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔
شام کے باغیوں نے اتوار کے روز کہا ہے کہ انہوں نے بشار الاسد کی 24 سالہ آمرانہ حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے، جس کا اعلان انہوں نے برق رفتار حملے کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن پر کیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک شامی فوجی اہلکار نے اسے بتایا ہے کہ شامی فوج کی کمان نے افسران کو مطلع کیا ہے کہ اسد کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔
شامی فوج کے 2 اعلیٰ عہدیداروں نے بتایا کہ بشار الاسد اتوار کی علی الصبح دمشق میں ایک طیارے میں سوار ہو کر نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ ان کے ٹھکانے اور ان کی اہلیہ عاصمہ اور ان کے دو بچوں کے ٹھکانے معلوم نہیں تھے۔
اس پیش رفت کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ شام کی بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ شام کے اتحاد، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کی ہے اور ہمارے اصولی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
پاکستانی شہری شام میں محفوظ ہیں اور انہیں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں پاکستان کا سفارت خانہ مدد اور مشاورت کے لیے کھلا ہے۔
فی الحال دمشق ہوائی اڈہ بند ہے۔ ہمارا سفارتخانہ زائرین سمیت پھنسے ہوئے پاکستانی شہریوں سے رابطے میں ہے۔ اس سے ہوائی اڈے کے کھلنے کے بعد ان کی واپسی میں آسانی ہوگی۔
جمعہ کے روز پاکستان نے اپنے شہریوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ شام میں خانہ جنگی سے متعلق حالیہ پیش رفت کے بعد غیر ضروری سفر یا دورے سے گریز کریں۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا ترک ہم منصب سے شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فدان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا جس میں شام کی بدلتی ہوئی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسحاق ڈار نے ترک ہم منصب کو شام میں اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کیا۔
دونوں رہنماؤں نے شام میں پھنسے پاکستانی شہریوں کی مدد اور حفاظت کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے ممکنہ راستوں پر بھی غور کیا۔
Comments