وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) پر واضح کیا ہے کہ کسی بھی شوگر مل کی جانب سے گنے کی کرشنگ بروقت شروع کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کے نتیجے میں اس کا ایکسپورٹ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔

شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر نے کسانوں کو استحصال سے بچانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے طریقوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ شوگر ملز مالکان کاشتکاروں کو ان کے گنے کی مناسب قیمت پر معاوضہ دینے کے پابند ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے صوبائی کین کمشنرز کو گنے کی کرشنگ کی جاری سرگرمیوں پر رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

ایس اے بی نے ملک میں چینی کے موجودہ ذخائر پر اطمینان کا اظہار کیا اور وفاقی وزیر نے شوگر کرشنگ سیزن کے بروقت آغاز کو ایک اہم کامیابی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ شوگر کرشنگ سیزن کا بروقت آغاز ایک اہم کامیابی ہے اور اس سے چینی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا جس سے مارکیٹ میں استحکام آئے گا۔

انہوں نے شوگر ملز کی جانب سے گنے کی کم قیمتوں کے حوالے سے کاشتکاروں کی شکایات کا بھی نوٹس لیا اور شوگر کمشنر کو آئندہ اجلاس میں گنے کی قیمتوں پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

بورڈ نے ملک میں چینی کے ذخائر کی موجودہ صورتحال کا بھی جائزہ لیا اور ملک میں چینی کے موجودہ ذخائر پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا۔

بورڈ اجلاس میں پی ایس ایم اے سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بھی شرکت کی جس میں چینی کے اسٹاک کی دستیابی، گنے کے نئے کرشنگ سیزن کے آغاز، موجودہ مارکیٹ قیمتوں، گنے کے نرخوں، عالمی مارکیٹ میں چینی کی موجودہ قیمتوں اور صنعت کی پیداواری لاگت پر تبادلہ خیال اور جائزہ لیا گیا۔

صوبائی وزیر نے پی ایس ایم اے کو ہدایت کی کہ 8 اکتوبر 2024 ء کے فیصلے کے مطابق تین ماہ کے لئے مقرر کردہ مقررہ وقت کے اندر چینی کی برآمد کی اجازت شدہ مقدار کو یقینی بنایا جائے اور مقامی اجناس کی قیمتیں مستحکم رہیں تاکہ صارفین کو ماضی کی طرح مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک سرکاری پریزنٹیشن کے مطابق، صنعت نے اب تک برآمدات کے لئے مختص 790،000 کوٹے میں سے صرف 330،000 ٹن برآمد کیا ہے کیونکہ برآمدات کے لئے 460،000 ٹن منظور شدہ کوٹہ ابھی تک استعمال نہیں ہوا ہے۔

اجلاس کے دوران پی ایس ایم اے کے نمائندوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس رواں سال 17 لاکھ ٹن سے زائد اضافی چینی موجود ہے جسے برآمد کیا جانا چاہیے تھا۔

جبکہ حکومت نے جون 2024 میں پی ایس ایم اے کو ایک لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اگست میں مزید ایک لاکھ ٹن کی توسیع کی گئی اور تاجکستان کو حکومتی سطح پر 40 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی اور 8 اکتوبر 2024 کو حکومت نے چینی کی صنعت کو 5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی۔

کین کمشنر شوگر آف ٹیک/کھپت رپورٹ کے مطابق گزشتہ 12 ماہ میں مقامی سطح پر مجموعی طور پر 6.33 ملین ٹن چینی استعمال کی گئی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ماہانہ اوسطا 545,000 ٹن چینی استعمال کی گئی جس میں مقامی کھپت اور برآمد شدہ مقدار بھی شامل تھی۔

کرشنگ سیزن 24-2023 کے دوران پاکستان نے مجموعی طور پر 6.843 ملین ٹن چینی پیدا کی ہے جس میں سے پنجاب میں 4.37 ملین ٹن، سندھ میں 2.022 ملین ٹن اور خیبر پختونخوا (کے پی کے) میں 447,000 ٹن چینی پیدا کی گئی۔

سیزن کے دوران ملک میں مجموعی طور پر 8 لاکھ 23 ہزار ٹن چینی کا ذخیرہ موجود تھا جس میں سے 5 لاکھ 17 ہزار ٹن پنجاب کی ملوں کے پاس، 1 لاکھ 91 ہزار ٹن سندھ کی ملوں کے پاس اور 1 لاکھ 15 ہزار ٹن خیبر پختونخوا کے پاس تھا جس کی مجموعی مقدار 76 لاکھ 64 ہزار ٹن تھی۔

پی ایس ایم اے حکام کے مطابق گزشتہ سال گنے کی قیمت 350 روپے فی 40 کلو مقرر کی گئی تھی جو 24-2023 میں 450 روپے فی 40 کلو تک پہنچ گئی اور اس وقت چینی کی پیداواری لاگت 170 روپے فی کلو ہے جبکہ ریٹیل مارکیٹ میں ریفائنڈ چینی 140 روپے فی کلو کے درمیان دستیاب ہے جو دنیا میں سب سے کم قیمت ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت 6100 روپے فی 50 کلو گرام تھیلے تک پہنچ گئی ہے جو دو سال کی کم ترین سطح ہے۔

اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں چینی کا صنعتی استعمال 85 فیصد اور باقی 15 فیصد گھریلو استعمال ہے۔ اس کے علاوہ چینی پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کیا گیا تھا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف