شامی باغیوں نے ہفتے کے روز جنوبی شہر درعا پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا، جو 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کا مرکز تھا اور یہ اس ہفتے میں ان کی فورسز کے کنٹرول سے نکلنے والا چوتھا شہر ہے۔

باغی ذرائع کا کہنا تھا کہ فوج نے ایک معاہدے کے تحت درعا سے منظم انداز میں انخلاء کرنے پر اتفاق کیا، جس میں فوجی افسران کو دارالحکومت دمشق جانے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کیا گیا، جو کہ تقریباً 100 کلومیٹر (60 میل) شمال میں واقع ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں باغیوں کو موٹر سائیکلوں پر سوار اور دوسرے افراد کو گلیوں میں مقامی باشندوں کے ساتھ گھل ملتے دکھایا گیا۔ ویڈیوز کے مطابق لوگوں نے جشن مناتے ہوئے شہر کے مرکزی چوک میں ہوائی فائرنگ کی ہے۔

فوج یا اسد حکومت کی جانب سے فوری طور پراس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا اور رائٹرز آزادانہ طور پر باغیوں کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔

درعا کے سقوط کے ساتھ ہی ایک ہفتے کے دوران باغیوں نے اسد کی افواج کے 4 اہم مراکز پر قبضہ کرلیا ہے۔

درعا کی آبادی 13 سال قبل خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے ایک لاکھ سے زیادہ تھی، بغاوت کے مرکز کے طور پر علامتی اہمیت کا حامل یہ شہر اردن کی سرحد سے متصل 10 لاکھ آبادی والے صوبے کا صدر مقام ہے۔

درعا پر قبضہ جمعے کے روز باغیوں کے اس دعوے کے بعد کیا گیا ہے کہ وہ دارالحکومت اور بحیرہ روم کے ساحل کے درمیان ایک اہم چوراہے حمص کے مرکزی شہر کے کنارے تک پہنچ گئے ہیں۔

حمص پر قبضے سے دمشق کا اسد کے اقلیتی علوی فرقے کے ساحلی گڑھ سے اور وہاں اس کے روسی اتحادیوں کے بحری اڈے اور فضائی اڈے سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ حملے کی قیادت کرنے والے شامی گروہ نے ٹیلی گرام میسجنگ ایپ پر کہا ہے کہ ہماری افواج نے حمص شہر کے مضافات میں واقع آخری گاؤں کو آزاد کرا لیا ہے اوربہت جلد یہ ہمارے کنٹرول میں ہوگا۔

حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) سمیت باغی گروہوں کے اتحاد نے حمص میں بشار الاسد کی حکومت کی وفادار فورسز سے دستبرداری کا آخری مطالبہ کیا تھا۔

مقامی افراد اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ باغیوں کی پیش قدمی سے قبل ہزاروں افراد حمص سے فرار ہو کر حکومت کے مضبوط گڑھ لطقیہ اور طرطوس کے ساحلی علاقوں کی طرف چلے گئے۔

اسد حکومت خطرے میں

شام کے تین ذرائع نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ شامی کرد جنگجوؤں کی قیادت میں امریکی حمایت یافتہ اتحاد نے جمعے کے روز دیر الزور پر قبضہ کر لیا ہے۔ باغیوں نے شمال مغرب میں حلب اور حما پر قبضہ کر لیا ہے اور اس سے پہلے 27 نومبر کو برق رفتار کارروائی شروع ہوئی تھی۔

مشرقی شام میں بشار الاسد کے لیے ایک اور منحوس اشارہ دیتے ہوئے شامی کرد فورس نے کہا ہے کہ داعش نے مشرقی شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے جس نے 2017 میں امریکی قیادت والے اتحاد کے ہاتھوں شکست سے قبل سخت گیر حکومت کے تحت مارشل لاء نافذ کیا تھا۔

تھنک ٹینک سینچری فاؤنڈیشن کے ایک فیلو ایرون کا کہنا ہے کہ اسد کی حکومت اس وقت اپنی جان بچانے کے لیے لڑ رہی ہے۔

ایرون نے جمعے کے روز کہا کہ یہ ممکن تھا کہ حکومت حمص پر قبضہ کر لے، “لیکن جس رفتار سے معاملات اب تک آگے بڑھ رہے ہیں، میں اس پر بھروسہ نہیں کروں گا۔

شام کے سرکاری ٹی وی نے شام میں روسی رابطہ مرکز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ حما، ادلب اور حلب کے دیہی علاقوں میں باغیوں کے ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنانے والے روسی اور شامی فضائی حملوں میں کم از کم 200 باغی ہلاک ہو گئے ہیں۔

شامی فوج کے ایک ذرائع نے بتایا کہ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کی افواج حمص اور اس کے آس پاس حکومتی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے تعینات ہیں۔

شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق جمعے کے روز حمص کے دیہی علاقوں میں شامی اور روسی فضائی افواج، توپ خانے، میزائلوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ایک آپریشن کے دوران درجنوں باغی ہلاک ہوگئے۔

حمص پر قبضہ کرنے سے شمال میں ترکی کی سرحد پر حلب سے لے کر جنوب میں اردن کی سرحد پر درعا تک باغیوں کے کنٹرول میں طاقتور پوزیشنوں کا ایک سلسلہ مضبوط ہو جائے گا۔

حمص پر قبضے سے باغیوں کے دمشق میں اسد حکومت کی نشست کو الگ تھلگ کرنے کے امکانات میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ وہ دارالحکومت سے شمال مغرب میں سمندر کی جانب جانے والے راستے کو بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

باغی دوبارہ متحرک ہوگئے

باغیوں کی جانب سے حملے کے بعد روس اور اردن نے جمعے کے روز اپنے شہریوں پر زور دیا کہ وہ شام چھوڑ دیں۔

کئی برسوں تک منجمد فرنٹ لائنوں کے پیچھے بند رہنے کے بعد، باغی افواج 13 سال قبل بشار الاسد کے خلاف سڑکوں پر ہونے والی بغاوت کے بعد سے دونوں طرف سے میدان جنگ میں تیزی سے پیش قدمی حاصل کرنے کے لیے شمال مغربی ادلب کے اپنے گڑھ سے باہر نکل آئی ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے 2022 میں کہا تھا کہ 2011 اور 2021 کے درمیان شام کے تنازع میں 305،000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

روس، ایران اور لبنان کی حزب اللہ کے اہم اتحادیوں کی مدد کے بعد بشار الاسد نے شام کے زیادہ تر حصوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ لیکن حال ہی میں یہ سب کچھ کمزور ہو گیا ہے اور دوسرے بحرانوں کی وجہ سے اس کا رخ موڑ دیا گیا ہے، جس سے جنگجوؤں کو لڑنے کا موقع مل گیا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے علاقائی حکام اور 3 ایرانی عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تہران جو گزشتہ سال غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اپنے روایتی دشمن اسرائیل کے ساتھ کشیدگی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، نے جمعے کی شام سے اپنے فوجی عہدیداروں اور اہلکاروں کو نکالنا شروع کر دیا، جوبشارالاسد کو اقتدار میں رکھنے میں ایران کی ناکامی کی علامت ہے۔

باغیوں کے اہم گروہ ایچ ٹی ایس کے سربراہ ابو محمد الجیلانی نے جمعے کے روز نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک الگ انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا کہ باغی اسد کی حکومت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے باغیوں کی برق رفتار حملے کے بارے میں کہا کہ اس آپریشن نے دشمن کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔

Comments

200 حروف