پاکستان کے دارالحکومت میں پچھلے مہینے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج ہوا جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، مگر ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس احتجاج کے دوران ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتاری کا سامنا بھی کیا گیا

پاکستان میں سیاسی بحران کے دوران آن لائن رسائی کو محدود کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے، جہاں سوشل میڈیا سائٹس پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں یا مکمل طور پر انٹرنیٹ کو عارضی طور پر بند کر دیا جاتا ہے۔

امریکہ نے فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش کی مذمت کی تھی جس میں عمران خان کی جماعت نے اپنی سرگرمیوں پر کریک ڈاؤن کے باوجود سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔

انٹرنیٹ پر انحصار کرنے والے کاروباری اداروں نے شکایت کی ہے کہ حکومت کی جانب سے مواد اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی ، ریگولیٹ کرنے کے لیے قومی فائر وال کے نفاذ اور طویل عرصے تک انٹرنیٹ منقطع ہونے کے نتیجے میں پاکستان کو کروڑوں ڈالر کی آمدنی کا نقصان ہوسکتا ہے۔

حکومت سنسرشپ کی کسی بھی کوشش سے انکار کرتی ہے۔

ڈیجیٹل حقوق کے ایک معروف کارکن اسامہ خلجی نے کہا کہ ہم بنیادی آئی ٹی اور ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے پر سویلین کنٹرول کو کھوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، جو صرف شفافیت کی کمی کی وجہ سے بدتر ہو گیا ہے۔ یہ تقریباً ایک چھپی ہوئی بغاوت کی طرح محسوس ہو رہا ہے۔“

پاکستان کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے لیہ میں، سحرش بانو کو مستحکم انٹرنیٹ کنکشن حاصل کرنے کے لیے ایک کمرے سے کمرے تک جانا پڑتا ہے، اس دوران وہ اپنے لیپ ٹاپ کو سنبھال کر تین مختلف کنکشنز کے درمیان سوئچ کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اکثر اوقات، ان میں سے کوئی بھی کام نہیں کرتا ہے۔

25 سالہ سحرش بانو کا کہنا تھا کہ خراب اور ناقابل اعتماد انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے فری لانس ویڈیو ایڈیٹر کے طور پر روزی کمانا اور آن لائن گرافک ڈیزائن کورس مکمل کرنے کی ان کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں آن لائن کلاسز نہیں لے پاتی کیونکہ زوم بار بار فریز ہو جاتا ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میرے ٹیچر کیا کہہ رہے ہیں۔تین ماہ پہلے کے مقابلے میں ، “واٹس ایپ کے ذریعے آڈیو پیغام بھیجنے یا تصویر یا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے جیسی معمولی چیزوں میں بھی پانچ گنا زیادہ وقت لگتا ہے۔

وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین شہزاد ارشد نے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران انٹرنیٹ کی رفتار میں 30 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔

ارشد نے اس کمی کی وجہ حکومت کی جانب سے ’ویب مینجمنٹ سسٹم یا فائر وال‘ کی تعیناتی کو قرار دیا۔

ڈیجیٹل رائٹس اور سول لبرٹیز گروپ بولو بھی کی شریک بانی فریحہ عزیز نے کہا کہ سرکاری فائر وال کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا ہے اور انہوں نے حکام پر الزام عائد کیا کہ وہ اس معاملے پر کوئی وضاحت نہیں دے رہے ہیں۔

فریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلسل شفافیت حکومت کی سرکاری پالیسی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے شفاف ہو۔

ایمنسٹی ٹیکنالوجسٹ جورے وان برگن نے اگست میں کہا تھا کہ “مواد کو روکنے، سست کرنے اور انٹرنیٹ کی رفتار کو کنٹرول کرنے والی مانیٹرنگ اور نگرانی کی ٹیکنالوجیز کے استعمال کے بارے میں پاکستانی حکام کی غیر شفافیت تشویش ناک ہے۔

وان برگن نے کہا کہ بار بار قومی فائر والز سمیت اس طرح کی ٹیکنالوجیز کا استعمال انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔

ڈیجیٹل خلا

فریحہ عزیز نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ حکومت کا مقصد اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی پر قدغن لگانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کبھی بھی حکومت کسی ایپ کے پورے فنکشن میں خلل ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ عام طور پر پوری ویب سائٹ یا ایپلی کیشن کام کرنا بند کر دیتی ہے۔ لیکن یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف میڈیا فائلز میں خلل ڈالا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ حکومت کی جانب سے ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کے استعمال کو محدود کرنے کی کوششوں کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گیا ہے، جو ڈیٹا کو خفیہ کرتے ہیں اور آئی پی ایڈریس کو ماسک کرتے ہیں، جس سے صارفین کو انٹرنیٹ کو زیادہ محفوظ طریقے سے براؤز کرنے کی اجازت ملتی ہے۔

پاکستانی حکومت نے کہا ہے کہ وہ وی پی اینز پر پابندی لگانے کا ارادہ نہیں رکھتی اور ملک بھر میں بینڈوتھ سست کرنے کی کسی بھی ذمہ داری سے انکار کرتی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل تفریق بہت زیادہ ہے — ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو ناقص ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر اور استطاعت کی مشکلات کی وجہ سے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم ایک خلیج بن سکتی ہے۔

فریحہ عزیز نے کہا کہ واٹس ایپ، وائس نوٹس شیئر کرنا، تعلیمی اور کام کے مقاصد کے لیے لنکس بھیجنا، اب زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔

یہ مسئلہ اتنا سنگین ہو گیا ہے کہ کچھ لوگ جن کا ذریعہ معاش انٹرنیٹ تک رسائی پر منحصر ہے وہ ملک چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔

فری لانس فوٹو ایڈیٹر اور گرافک ڈیزائنر احتشام خان کا کہنا ہے کہ وہ دبئی منتقل ہونے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ میں بار بار خلل پڑنے کی وجہ سے وہ اپنے صارفین سے محروم ہوگئے ہیں۔

اور یہ صرف افراد نہیں ہیں جو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

خلیجی نے کہا کہ کمپنیاں پہلے ہی دبئی، سنگاپور جیسے مقامات پر منتقل ہو رہی ہیں، جہاں انٹرنیٹ کی رسائی کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہماری غیر ملکی آمدن اور انٹرنیٹ برآمدات میں کمی آئی ہے، اور ان مسائل کی وجہ سے ہماری آئی ٹی صنعت کی صلاحیت دن بدن کم ہو رہی ہے

Comments

200 حروف