پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کی جانب سے جاری ہونے والے کپاس کے مجموعی ملکی پیداواری اعداد و شمار کے مطابق 30 نومبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں مجموعی طور پر51 لاکھ 90 ہزار 725 بیلز کے برابر پھٹی پہنچی جو 2023 کے 77 لاکھ 53 ہزار 473 بیلز کے مقابلے میں تقریبا 33.06 فیصد کم ہے۔ صوبائی اعدادوشمار کے مطابق پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں مذکورہ عرصے تک 34.19 فیصد کم ہوکر 24 لاکھ 59 ہزار 684 بیلز کے برابر پھٹی پہنچی، اسی طرح سندھ کی جننگ فیکٹریوں میں 27 لاکھ 31 ہزار 41بیلز کے برابر پھٹی پہنچی ہے جو گزشتہ سال کے 40 لاکھ 16 ہزار 724 بیلز کے مقابلے میں 32.01 فیصد کم ہے۔

بلوچستان میں رواں سال جننگ فیکٹریوں میں پھٹی کی آمد ایک لاکھ 55 ہزار 800 بیلز تک محدود تھی۔ مزید برآں، 2024 تک، ملک بھر میں 406 جننگ فیکٹریاں کام کررہی ہیں. یہ اعداد و شمار پاکستان میں کپاس کی پیداوار اور آمد دونوں میں نمایاں اور تشویش ناک کمی کی نشاندہی کرتے ہیں، جو زرعی شعبے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان کے ہیڈ ڈپارٹمنٹ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی ساجد محمود نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان عالمی سطح پر کپاس پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک تھا۔ تاہم غیر موثر پالیسیوں سمیت مختلف عوامل کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ آج پاکستان کپاس کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ہے اور اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو اس کے آٹھویں نمبر پر آنے کا امکان ہے۔ کپاس کی پیداوار کو بڑھانے اور بحال کرنے کے لئے فوری اقدامات کے لئے یہ ایک اہم لمحہ ہے۔ اس مسئلے کو صرف کانفرنسوں، تقاریر، کمیٹیوں کی تشکیل یا رنگا رنگ پریزنٹیشنز کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بجائے، کپاس کی پیداوار اور تحقیق کو حقیقی طور پر بہتر بنانے کے لئے ٹھوس، تحقیق پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے جو زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔

اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کیلئے ایک اہم قدم 10,000 روپے فی من کی کم از کم امدادی قیمت کا تعین ہے، جو کپاس کی بوائی کے سیزن سے کم از کم ایک ماہ قبل طے کی جائے۔ یہ اقدام کسانوں کو ایک مضبوط مالی بنیاد فراہم کرے گا، جس سے وہ متبادل فصلوں کی بجائے کپاس کی کاشت کو ترجیح دے سکیں گے۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ کیڑوں، خاص طور پر سفید مکھی اور گلابی کیڑوں سے نمٹنے کے لئے آب و ہوا کے لچکدار، جدید بیج اور حکمت عملی تیار کی جائے۔ یہ ایک اہم ضرورت ہے جو تحقیقی اداروں کے اندر صلاحیتوں کو بڑھانے کا مطالبہ کرتی ہے۔

اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ تحقیقی ادارے خاص طور پر پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی) کو مالی چیلنجز کو کم کرنے اور تحقیق و ترقی کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے مناسب اور فوری فنڈز فراہم کیے جائیں۔ مزید برآں ڈیوٹی فری کپاس کی درآمد پر پابندی عائد کرنے سے مقامی زرعی پیداوار اور تحقیقی اقدامات کو فروغ مل سکتا ہے۔ یہ پالیسی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مقامی کسانوں اور تحقیقاتی اداروں کی حمایت کرنے کی ترغیب دے گی، جیسا کہ چینی اور چاول کی صنعتوں نے اپنی حمایت فراہم کی ہے۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برآمدی مینوفیکچرنگ کے لیے زیرو ریٹنگ پالیسی کو بحال کرے، مقامی ٹیکسٹائل مینوفیکچررز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس ختم کرے اور ٹیکس کی واپسی میں تاخیر اور ٹیکسٹائل برآمدات پر اضافی ٹیکسز کو حل کرے۔ان مطالبات کی منظوری کا دارومدار کپاس کی بحالی کے پروگرام، کسانوں کے لیے مراعات، اور پاکستان کے تحقیقاتی اداروں خصوصاً پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کی حمایت پر ہونا چاہیے۔ اس طرح کا جامع نقطہ نظر نہ صرف کپاس کی صنعت کے درپیش مسائل کو حل کرے گا بلکہ کپاس کی پیداوار اور تحقیق میں بھی بہتری لائے گا۔ ان اقدامات سے کپاس کے فروغ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے کردار کو تقویت ملے گی اور قومی معیشت کے استحکام میں اضافہ ہوگا۔ رواں سال پاکستان سے کپاس کی 50 لاکھ گانٹھیں درآمد کیے جانے کا امکان ہے جس کی مالیت تقریبا 2 ارب ڈالر ہے۔

کپاس کو دیگر فصلوں جیسے گنے، چاول اور مکئی سے مسابقتی بنانے کے لئے موثر پالیسیاں وضع کی جائیں۔ ان پالیسیوں میں کاشتکاروں کے لیے مالی امداد، بیج کی بہتر اقسام اور جدید زرعی مشینری تک رسائی شامل ہونی چاہیے۔ اس بات کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کو کپاس کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہونے کے ناطے امریکہ کو پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں اضافہ دیکھنے یا کپاس کے تحقیقی اداروں کو مکمل طور پر فعال کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی امریکی مفادات سے مطابقت رکھتی ہے کیونکہ اس سے امریکی کپاس کی برآمدات میں اضافے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس کی روشنی میں پاکستان کو اپنی پالیسیوں کو مضبوط کرنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ تحقیق اور ترقی کے ادارے بیرونی دباؤ یا مداخلت سے محفوظ رہیں۔

کپاس کے چیلنجز سے کسان دوست پالیسیوں اور موثر مارکیٹ میکانزم کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔ کسانوں کو بازاروں تک براہ راست رسائی فراہم کرنا اور انہیں مڈل مین کے استحصال سے آزاد کرنا ضروری ہے۔ زرعی منڈیوں کو مضبوط بنانے کے لئے مارکیٹ کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور کسانوں کو اپنی پیداوار براہ راست فروخت کرنے کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں جدید ٹیکنالوجی اور آگاہی سے کاشتکاروں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کپاس کی پیداوار کو بہتر بنانے کی کلید ہے۔

کپاس اگانے والے علاقوں میں گنے اور چاول جیسی غیر ضروری فصلوں کی کاشت سے آبی وسائل اور زمین کی زرخیزی پر مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ گنے اور چاول دونوں ہی پانی کی ضرورت والی فصلیں ہیں، جس سے زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اور مٹی کی زرخیزی کم ہو رہی ہے۔ مزید برآں، چاول اور چینی کی برآمدات کے ذریعے لاکھوں گیلن میٹھے پانی کی بالواسطہ برآمد پاکستان جیسے پانی کی کمی والے ملک کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ قیمتی آبی وسائل کے تحفظ اور قومی مفادات کے لئے ان کے پائیدار استعمال کو یقینی بنانے کے لئے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے۔ کسانوں کے مسائل کو حل کرنے اور تحقیقی اداروں کی بحالی کے لئے عملی اور طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

کپاس پر 18 فیصد ٹیکس فوری طور پر ختم کیا جائے کیونکہ اس سے کاشتکاروں اور صنعت دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان جامع اقدامات پر عمل درآمد سے نہ صرف کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ معیشت بھی مستحکم ہوگی اور پانی جیسے اہم وسائل کی بچت ہوگی۔

پاکستان کاٹن بروکرز ایسوسی ایشن کے مطابق 2024-25 کے کپاس کے سیزن میں 5.19 ملین بیلز کی آمد کی تصدیق کی گئی ہے، جس میں ہر پندرہ دن میں 296,777 بیلز کی آمد ہوئی ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2024/25 کا کپاس سیزن تقریباً 5.5 ملین بیلز تک جا سکتا ہے۔

کپاس کی پیداوار میں کمی کے باوجود مارکیٹ میں سست روی کا سامنا ہے، جو کہ متعدد وجوہات کی بنا پر ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے کئی ٹیکسٹائل انڈسٹریل یونٹس کی بندش کے باعث طلب میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملز کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، جس کے سبب کپاس کے کاروبار میں بے چینی پھیل گئی ہے۔

کپاس کی معیار کے مسائل نے مقامی خریداری کی جانب خریداروں کی توجہ کو موڑ دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ درآمدی کپاس پر مرکوز ہو گئے ہیں۔ یارن کی درآمد نے بھی مارکیٹ کو سست کر دیا ہے۔

تاہم، بہتر معیار رکھنے والے گنرز کو توقع ہے کہ جنوری میں کپاس کے کاروبار میں کچھ بہتری آسکتی ہے۔

کپاس کے تجزیہ کار نسیم عثمان نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ کپاس کے بحران کا خدشہ ہے کیونکہ مقامی پیداوار قومی طلب سے کم رہنے کا امکان ہے جس کی وجہ سے درآمدات کی کافی ضرورت ہوگی۔

اس سال کپاس کی پیداوار کا تخمینہ صرف پچاس لاکھ گانٹھوں تک پہنچنے کا ہے۔ اس اعداد و شمار میں غیر رجسٹرڈ بیلز شامل نہیں ہیں ، جو اکثر کل پیداوار کا ایک اہم حصہ ہوتی ہیں۔ ملکی رسد اور صنعت کی طلب کے درمیان فرق کو کم کرنے کے لیے توقع ہے کہ پاکستان50 لاکھ گانٹھ کپاس درآمد کرے گا جس کی مالیت تقریبا دو ارب ڈالر ہے۔ اب تک 35 لاکھ گانٹھوں سے زائد کے درآمدی معاہدوں کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔

کپاس کی ملکی پیداوار میں کمی بنیادی طور پر خراب موسمی حالات اور فصل کی پیداوار کو متاثر کرنے والے دیگر عوامل کی وجہ سے ہے۔ یہ پیش رفت ملک کی ٹیکسٹائل صنعت کے لئے ایک اہم چیلنج ہے، جو معیشت میں ایک اہم شراکت دار ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف