اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کی پٹی میں رات بھر گھروں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں بیت لحیہ قصبے کی ایک عمارت میں کم از کم 15 فلسطینی شہید ہو گئے۔
فلسطینی سول ایمرجنسی سروس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے اور بے گھر افراد کو پناہ فراہم کرنے والے ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد لاپتہ ہوگئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ علاقے میں مشکل سے کام کرنے والے تین اسپتالوں میں لائے گئے زخمیوں کو فوری طبی امداد کی فراہمی محال ہوگئی ۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جبالیہ، بیت لحیہ اور بیت حنون میں کئی گھروں پر بمباری کی گئی اوربعض کو آگ لگا دی گئی،ان علاقوں میں اسرائیلی فوج کئی ہفتوں سے کارروائی کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ڈرونز نے بے گھر ہونے والے خاندانوں کو پناہ دینے والے ایک اسکول کے باہر بم گرائے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد انہیں ملک چھوڑنے سے ڈرانا تھا۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کے شمالی کنارے سے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہے اور بفر زون بنانے کے لیے زبردستی انخلا اور بمباری کر رہی ہے۔ اسرائیلی فوج اس بات کی تردید کرتی ہے۔
غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی میں 44 ہزار 400 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ زیادہ تر آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ غزہ کا وسیع علاقہ کھنڈرات کا منظر پیش کررہاہے ۔
جنگ بندی کے لیے نئی کوشش
اسرائیل نے گزشتہ ہفتے لبنان کے مسلح گروپ حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا لیکن غزہ میں تنازع جاری ہے۔
قاہرہ میں حکام نے حماس اور فلسطینی صدر محمود عباس کی سربراہی میں حریف فتح گروپ کے درمیان جنگ کے بعد غزہ کو چلانے کے لیے ایک کمیٹی کے ممکنہ قیام کے بارے میں بات چیت کی میزبانی کی ہے۔
مصر نے تجویز پیش کی ہے کہ غیر جانبدار ٹیکنوکریٹ شخصیات پر مشتمل ایک کمیٹی، جس کی نگرانی عباس کی اتھارٹی کرے، جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کو براہ راست چلانے کے لیے تیار رہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کا حکومت میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
بات چیت سے وقف کار ایک عہدیدار نے بتایا کہ پیش رفت ہوئی ہے لیکن کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ اسرائیل کی منظوری اس بات کا تعین کرنے میں فیصلہ کن ہوگی کہ آیا کمیٹی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے یا نہیں۔
مصری سکیورٹی حکام نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی تک پہنچنے کے طریقوں پرحماس سے بھی بات چیت کی ہے۔
ثالثی کی کوششوں میں شامل ایک فلسطینی عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ حماس اپنی اس شرط پر قائم ہے کہ کسی بھی معاہدے میں جنگ کا خاتمہ اور اسرائیلی افواج کا انخلا شامل ہونا چاہیے، لیکن اس کے حصول کے لیے ضروری لچک کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ اسی وقت ختم ہوگی جب حماس غزہ پر حکومت نہیں کرے گی اور اسرائیلیوں کو اس سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ گیدون سار نے اتوار کے روز کہا تھا کہ یرغمالیوں کے معاہدے کی جانب پیش رفت کے کچھ اشارے ملے ہیں لیکن جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی شرائط میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ ان کے خیال میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے معاہدے کے امکانات اب زیادہ ہیں۔
Comments