اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیکس اسسمنٹ کی کارروائی میں منٹ شیٹس کو ایف بی آر کا انٹرنل ریکارڈ بنانے اور ٹیکس دہندگان کے لیے ناقابل رسائی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی ٹیکس محتسب (ایف ٹی او)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو کو نوٹس ز جاری کردیے۔

باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایک ٹیکس دہندہ، خورشید شاہزاد بٹ، نے اسلام آباد کے چیف ٹیکس آفیسر (سی ٹی او) سے مخصوص دستاویزات (منٹ / آرڈر شیٹس) تک رسائی کی درخواست کی، جو کہ سی ٹی او کے ٹیکس اہلکاروں کی جانب سے تشخیص کے دوران تیار کی جاتی ہیں۔ سی ٹی او کی طرف سے آرڈر شیٹس کی نقل فراہم کرنے سے انکار کرنے پر ایف بی آر کی شفافیت اور احتساب پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ اس اہم دستاویزات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ایف بی آر کی عوام کے ساتھ مؤثر طریقے سے بات چیت کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

سی ٹی او پر الزام ہے کہ وہ مختار احمد علی بمقابلہ رجسٹرار سپریم کورٹ (2023 ایس سی پی 312) اور وحید شہزاد بٹ بمقابلہ ایف او پی (پی ایل ڈی 2016 لاہ 872) میں آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت ایس سی پی کے اختیارات کو کمزور کرنے کی کوشش میں مبینہ طور پر ملوث ہے۔

رابطہ کرنے پر خرم شہزاد بٹ نے بتایا کہ آرڈر شیٹس کو خفیہ دستاویزات کے طور پر درجہ بندی کرنا سپریم کورٹ/ ہائی کورٹ کے جاری کردہ احکامات کی صریح توہین اور یہاں تک کہ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے سابق ایف ٹی او کے احکامات کے بھی منافی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار اس حکم سے ناخوش ہیں جس کے مطابق درخواست گزاروں کے ٹیکس اسسمنٹ کے سلسلے میں ٹیکسیشن افسر کی جانب سے رکھی گئی آرڈر شیٹ کی درخواست مسترد کردی گئی۔ ایف ٹی او نے یہ سمجھنے میں ناکامی کا سامنا کیا کہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے حوالہ دی گئی منٹ شیٹ دراصل درخواست گزاروں کے کیس سے متعلق تشخیصی کارروائیوں میں تیار کی جانے والی آرڈر شیٹس ہیں۔“

درخواست گزاروں کو ایسی آرڈر شیٹس کی ایک نقل حاصل کرنے کا حق ہے کیونکہ یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ٹیکس حکام نے فیصلہ سازی کے عمل کو کس طرح انجام دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے خلاف اسسمنٹ آرڈر جاری کیا گیا ہے اور انہیں آرڈر شیٹس کی کاپیاں فراہم کرنے کا حق حاصل ہے جس میں ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ٹیکس ڈیمانڈ کا فیصلہ کرنے کے طریقہ کار کی عکاسی ہوتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ جوابات دہندگان کو 23 جنوری 2025 کے لیے نوٹس جاری کیے جائیں، اور وہ سات دن کے اندر رپورٹ اور پیرا-وائز کمنٹس داخل کریں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جوابات دہندگان نمبر 3 اور 4 یہ یقینی بنائیں کہ ان کے دفاتر کے ذمہ دار افسران اگلی سماعت پر عدالت میں پیش ہوں اور وہ ریکارڈ ساتھ لائیں جس میں وہ سماعتیں شامل ہوں جن میں تشخیص کے عمل کی کارروائی کی گئی۔

Comments

200 حروف