پاک سرزمین پر اس وقت ناپسندیدہ لوگوں کے احتجاج توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، ان قومی بدمعاشوں نے ملک کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ فہرست طویل ہے تاہم اس میں 2 افراد نمایاں ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو حال ہی میں لندن میں ہراساں کیا گیا تھا، جہاں انہیں حال ہی میں دیکھا گیا تھا۔
گرمیوں میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف کو پیرس میں اس وقت مخالفین کا سامنا کرنا پڑا جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ تعطیلات گزار رہے تھے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان افراد کا مقابلہ کریں گے جنہوں نے ان کے جذبات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ ملک میں جبری ریاستی نظام کا غلط استعمال اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لئے کیا جاتا ہے لیکن مغرب میں اظہار رائے کی آزادی ایک معمولی بات ہے جو میگنا کارٹا کے نفاذ کے بعد سے 1512 سے جاری ہے جس میں بادشاہ کو بھی قوانین کے تابع ہونے کی ضرورت تھی۔
یعنی یہ بات عالمی سطح پر تسلیم کی گئی کہ کوئی بھی فرد ملک کے قانون سے بالاترنہیں ہے۔ اس کے بعد سے جمہوری دنیا میں شہری آزادیوں کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔ جو لوگ حد سے تجاوز کرنے کی جسارت کرتے ہیں، عوام ان کا تعاقب کرتے ہیں اور یہ ایک مشہورکہاوت ہے، ”آپ بھاگ سکتے ہیں مگرچھپ نہیں سکتے“۔ جب طاقتورعہدے سے ہٹتے ہیں تو وہ کمزور ہوجاتے ہیں۔
اس کے بعد لوگ اپنے مفادات کے خلاف کئے گئے جرائم پرغصے کا اظہارکرتے ہیں۔ عوامی سطح پر اس طرح کی اشتعال انگیزی اب رکنے والی نہیں جسے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد طاقتوروں کے لیے ایک انتباہ کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ اطلاعات کے جدید دور میں کسی بھی شخص کے لئے اس کے کئے گئے کام کے نئائج بہت اہم معنی رکھتے ہیں کیونکہ اب رازوں کو زیادہ دیر تک چھپاکر نہیں رکھا جاسکتا۔
جو افراد عوامی جذبات کو مجروح کرکے خود کو ناپسندیدہ بنا لیتے ہیں، ان کے پاس اپنے انجام کار کی تلافی کے لیے کئی راستے ہوتے ہیں۔ اردو شاعری میں ایک مشہور شعر ہے جس کا مفہوم ہے: “ کوئی گزرا ہے، اپنے پیچھے قدموں کے نشان چھوڑ گیا ہے“۔ ہر قدم ایک نشان چھوڑتا ہے، کچھ نظرآتے ہیں جبکہ کچھ ظاہر ہونے میں وقت لیتے ہیں۔ مغربی دنیا میں زیادہ تر طاقتور افراد اپنی غلطیوں پر معافی مانگتے ہیں۔
امریکی صدور جان ایف کینیڈی اور لنڈن جانسن کے دور میں وزیر دفاع رابرٹ میک نامارا نے ویتنام جنگ میں امریکہ کے ملوث ہونے پر معافی کی درخواست کی تھی جس میں 50,000 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے جنہیں بے مقصد جنگ میں لڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس مہم جوئی کے اثرات آج تک معاشرے کو پریشان کر رہے ہیں۔ سابق فوجیوں کیلئے قائم انتظامیہ شکست خوردہ، ٹوٹے ہوئے اور پریشان فوجیوں کی مدد جاری رکھے ہوئی ہے جو جنگ میں زندہ بچ کر واپس آگئے تھے۔
پاکستان میں آمریت کا آغاز صوابدیدی اختیارسے تجاوزکرتے ہوئے آخری گورنر جنرل نے کیا تھا، جو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بھی تھے، اسکندر مرزا نے امریکی مفادات کے لئے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور بیشر اوقات ملک کی طویل مدتی فلاح و بہبود پر سمجھوتہ کیا۔
اس کے بعد آنے والے تمام واقعات نے مادر وطن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ دوسرے مرحلے میں پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا جبکہ تیسرے نے مالی فائدے کے لیے ملک کو افغانستان میں پراکسی وار میں دھکیل دیا جبکہ چوتھے نے امریکی انتقامی کارروائی کے خطرے کے پیش نظر اچانک یوٹرن لینے کا فیصلہ کیا۔
سابق چیف جسٹس جسٹس یعقوب علی خان نے حدود سے تجاوزکرنے والے ناپسندیدہ افراد سے نمٹنے کے لیے ایک نظریہ پیش کیا۔ یہ ایک سادہ طریقہ تھا۔ ’پہلے غیر مسلح کرو اور پھر مجرم ٹھہراؤ‘۔ جنرل پرویز مشرف پر صرف اس وقت مقدمہ چلایا گیا جب انہوں نے اپنی وردی اتاری اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا سنائی اور یحییٰ خان کو اس وقت غاصب قرار دیا گیا جب وہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اداروں کو تعمیر کرنا اور پھر انہیں مضبوط کرنا ضروری ہے کیونکہ افراد آتے جاتے ہیں۔ جنرل ڈگلس گریسی، آخری گورے آرمی چیف، نے اقربا پروری کی لعنت کے بارے میں انتباہ دیا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمن (ترک) نے اپنی سوانح حیات میں سبکدوش ہونے والے کمانڈر کے الفاظ کا ذکر کیا ہے۔ ہمارے جانے کے بعد آپ مسلح افواج سمیت تمام اداروں کو تباہ کر دیں گے۔
ترک اس سے متفق نہیں تھے۔ ان کے الفاظ تھے کہ پاک فوج میں دنیا کے بہترین سپاہی موجود ہیں۔ جی ہاں لیکن اقربا پروری اور جانبداری جب اپنی عروج پر آجائے تو اداروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاک سرزمین میں بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ مسلح افواج اور عدلیہ دونوں کا اپنا داخلی احتساب کا طریقہ کار ہے۔ اس وقت ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے۔
جسٹس فائزعیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی کارروائی ججز نے روک دی، اس طرح احتساب نہیں ہو سکا۔ بہت سے الزامات کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نہ صرف جانچ پڑتال کے عمل کو ٹال دیا بلکہ عدالت کے اعلیٰ ترین عہدے تک بھی پہنچ گئے۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ناپسندیدہ افراد کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔
بھٹو کے خلاف غلط مقدمے میں جسٹس نسیم حسن شاہ کا ووٹ فیصلہ کن تھا۔ انہوں نے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن انہیں دوبارہ بینچ پر بٹھا دیا گیا۔ بعد میں انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے دباؤ کے تحت فیصلہ کیا تھا جو ان کیلئے ایک پچھتاوا ہے۔ مشہور نظم ”آئینے کا چہرہ“ میں شاعر کا خیال ہے کہ کوئی شخص پوری دنیا کا سامنا کرسکتا ہے لیکن وہ آئینے میں دکھائی دینے والے (اپنے) چہرے کا سامنا نہیں کرسکتا۔
Comments