پاکستان

ایک درجن آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی شدہ پاور پرچیز ایگریمنٹ پر دستخط

  • حکومت کی انرجی ٹاسک فورس 1994 اور 2002 کے آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے، جو اب بھی اپنے منافع میں مجوزہ کٹوتی، ماضی کے مالی فوائد اور تاخیر سے ادائیگی پر سود پر مزاحمت کر رہے ہیں
شائع November 30, 2024

باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ حکومت کی توانائی ٹاسک فورس نے مبینہ طور پر 1994 اور 2002 کی پاور پالیسیوں کے تحت قائم ہونے والے تقریبا ایک درجن انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ نظر ثانی شدہ پاور پرچیز ایگریمنٹ (پی پی اے) پر دستخط کیے ہیں۔

وزیرِ توانائی سردار اویس خان لغاری کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس، جس میں معاون خصوصی برائے توانائی محمد علی، نیشنل کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل محمد ظفر اقبال، چیئرمین نیپرا، سی ای او سی پی پی اے-جی، مینجنگ ڈائریکٹر پی پی آئی بی اور نیپرا، سی پی پی اے-جی اور ایس ای سی پی کے ماہرین شامل ہیں، 1994 اور 2002 کی پاور پالیسیوں کے تحت قائم آئی پی پیز کے ساتھ ’سخت مذاکرات‘ کررہی ہے۔ کچھ آئی پی پیز اب بھی اپنے منافع میں کمی، ماضی کے مالی فوائد اور تاخیر سے ادائیگی پر سود میں کمی کی تجاویز کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق جب آئی پی پیز کے نمائندوں کو ان کی بے ضابطگیوں کے ثبوت پر مشتمل ”فائلیں“ دکھائی جاتی ہیں اور نئے معاہدوں کی پیشکش سامنے رکھی جاتی ہے، تو وہ ابتدائی طور پر کچھ مزاحمت کرتے ہیں لیکن غیر قانونی مالی فوائد کے شواہد دیکھنے کے بعد ان تجاویز پر رضا مند ہوجاتے ہیں۔

ایک سرکاری عہدیدار نے کہا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ روزانہ ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ 8 معاہدے ہو چکے ہیں، باقی آئندہ دو ہفتوں میں مکمل ہو جائیں گے، اس کے بعد 1994 اور 2002 کے پلانٹس سے فارغ ہو کر حکومت اور 2006 کی پالیسی کے تحت پلانٹس پر توجہ دیں گے۔“ تاہم، مزید دو یا تین آئی پی پیز نے بھی معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے محمد علی کی رپورٹ کا جائزہ لیا، جس میں 1994 کی پاور پالیسی کے تحت آئی پی پیز کے حاصل کردہ بھاری منافع کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ 17 آئی پی پیز میں سے 16 نے مجموعی طور پر 518 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی، جس سے 415 ارب روپے سے زائد منافع کمایا اور 310 ارب روپے سے زائد کے ڈیویڈنڈ تقسیم کیے۔ کئی آئی پی پیز نے اپنی سرمایہ کاری 2 سے 4 سال کے اندر واپس حاصل کر لی، جبکہ کچھ نے اپنی اصل سرمایہ کاری کے مقابلے میں 18.26 گنا منافع اور 22 گنا تک ڈیویڈنڈ حاصل کیا۔

کمیٹی نے آئی پی پیز کے منصوبوں سے متعلق تین اہم مسائل کی نشاندہی کی۔ سب سے پہلے، اس نے منصوبے کی اصل لاگت، اوور بلنگ اور اوور انوائسنگ کی حد اور منافع پر سوال اٹھایا جس میں 17 فیصد شرح اور ممکنہ کک بیکس شامل تھے۔ دوسرا یہ کہ اس وقت طے شدہ محصولات کا موازنہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھارت، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، سری لنکا اور مصر سے کیا جائے تاکہ 210 میگاواٹ کی گنجائش والے غیر ملکی انجنوں کی مناسب لاگت کا اندازہ لگایا جا سکے اور تیسرا انجن بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ ہیٹ ریٹ کی ضمانت پر توجہ دی۔

رپورٹ کے مطابق، کچھ کوئلے کے منصوبے، جیسے جامشورو پلانٹ، نے اپنی لاگت صرف دو سال میں پوری کر لی۔ حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی ہے اور پانچ پاور پلانٹس کو بغیر معاہدے کی شرائط دوبارہ طے کیے بند کر دیا ہے۔

کمیٹی نے باقی پاور پلانٹس کی موجودہ صورتحال اور ان اقدامات سے صارفین کو ملنے والے ممکنہ فوائد کے دورانیے اور حجم کا تخمینہ طلب کیا ہے۔

معاون خصوصی برائے توانائی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پاکستان میں خطے میں بجلی کی کھپت کی شرح سب سے زیادہ ہے، جس کے باعث اگست 2019 میں ایک مطالعہ کیا گیا، جس کی رپورٹ مارچ 2020 میں شائع ہوئی۔ بھارت میں آئی پی پیز کو مقامی کرنسی (بھارتی روپے) میں 16 فیصد منافع ملا، جبکہ پاکستان میں آئی پی پیز کو ڈالر میں منافع دیا گیا۔ اسی دور میں پاکستان کے مساوی کریڈٹ ریٹنگ رکھنے والے ممالک، جیسے میکسیکو اور ارجنٹائن، نے ڈالر میں صرف 10 فیصد منافع فراہم کیا۔

1990 کی دہائی میں پاکستان نے اپنا پہلا آئی پی پی نظام متعارف کرایا اور عالمی بینک کے مشورے کی بنیاد پر پیشگی ٹیرف نافذ کیا۔

2002 سے پاکستان نے آئی پی پی سرمایہ کاری پر زیادہ منافع کی پیشکش کی، جو ڈالر میں 13فیصد سے 17 فیصد تھا، جو اُس وقت عالمی اوسط سے دگنا تھا۔ اس میں تعمیر کے دوران ایکویٹی پر منافع بھی شامل تھا، جس سے کل منافع 20 فیصد سے 27 فیصد یا اس سے زیادہ تک پہنچا۔ اس ”کاسٹ پلس“ پالیسی کے تحت حکومت نے تمام اخراجات برداشت کیے، جبکہ صارفین نے قرضوں کا بوجھ اٹھایا۔

حکومت 50 فیصد بجلی پیدا کرتی ہے، جبکہ آئی پی پیز باقی نصف پیدا کرتی ہیں۔ تاہم، عدم ادائیگی کے مسائل، ترسیلی پابندیاں، اور بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں نے اس شعبے کو تناؤ میں ڈال دیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان میں ایک مسابقتی پاور مارکیٹ قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ بجلی کی پیداوار اور ٹیرف کی ترتیب سے باہر نکل جائے تاکہ ان نظامی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کیا جاسکے۔

دنیا بھر میں پاور مارکیٹس موجود ہیں جہاں جنریٹرز بجلی فروخت کرتے ہیں، سپلائرز اور ریٹیلرز اسے صنعتوں اور گھریلو صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں آئی پی پیز 10 سے 20 سال پہلے قائم کیے گئے تھے، لیکن اسی طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کرکے اصل سیٹ اپ اخراجات کا اندازہ لگانے کی کوششیں عالمی مشاورت کے لئے بجٹ کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوئیں۔

نیپرا ٹیرف کو پلانٹ کی کارکردگی کی بنیاد پر طے کرتا ہے، لیکن کارکردگی میں اتار چڑھاؤ کو مدنظر نہیں رکھا گیا، جیسے کہ جب پلانٹس 45 فیصد سے زیادہ کارکردگی دکھاتے ہیں۔ ایسے پلانٹس 45 فیصد سے زیادہ موثر تھے، کیونکہ وہ بجلی پیدا کرنے کے لیے کم ایندھن استعمال کرتے تھے، جس کے نتیجے میں آئی پی پیز کو کم ایندھن کے اخراجات کی وجہ سے منافع حاصل ہوتا تھا۔ تاہم جب نیپرا نے آڈٹ کرایا تو عدالت نے اس عمل کو روکنے کے لیے حکم امتناع جاری کر دیا۔

کمیٹی کا خیال تھا کہ کاسٹ پلس ٹیرف کے نظام میں، جہاں حکومت مکمل بجلی کی لاگت برداشت کرتی ہے، معاہدے کے تحت طے شدہ منافع کی ادائیگی ہونی چاہیے اور اضافی منافع صارفین کے فائدے کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ ڈالر کی بنیاد پر ادائیگیوں کی بجائے پاکستانی روپے میں ادائیگیاں کی جائیں اور ایک ”ٹیک اینڈ پے“ نظام اپنایا جائے، جس میں حکومت صرف استعمال شدہ بجلی کے لیے ادائیگی کرے۔

کمیٹی نے مارچ 2020 میں آئی پی پیز کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کے بعد کیے گئے اقدامات پر بھی سوال اٹھایا اور پیش رفت اور وصولیوں کے بارے میں دریافت کیا۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ حکومت نے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی اور آئی پی پیز کے ساتھ ایک مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے۔ اضافی واجبات پر تنازعہ آخرکار نیپرا کے پاس حتمی فیصلہ کے لیے بھیجا جائے گا۔

آئی پی پیز کے ساتھ حتمی معاہدے کے لیے مذاکرات کے مسئلے پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ ٹاسک فورس کے قیام کے بعد، گزشتہ دور میں آئی پی پیز کو کی جانے والی اضافی ادائیگیوں کی وصولی کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔

کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا کہ نیپرا نے جامع رپورٹس کے باوجود اضافی ادائیگیوں کا درست تعین نہیں کیا اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں ان زائد ادائیگیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ حکومت اس رقم کی وصولی میں ناکام رہی ہے اور عوام کو مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کمیٹی نے استفسار کیا کہ ٹاسک فورس کو رقم کی وصولی میں کتنا وقت لگے گا۔

اس کے جواب میں علی محمد نے کہا کہ اضافی ادائیگیاں مستقبل کی ادائیگیوں کے ذریعے وصول کی جائیں گی، جبکہ پانچ غیر استعمال شدہ پلانٹس کے ساتھ معاہدے ختم کر دیے گئے ہیں۔ اب مزید مستقبل کی ادائیگیاں نہیں کی جائیں گی، جس سے 400 ارب روپے کا فائدہ ہوگا اور سالانہ 60 ارب کی بچت ہوگی۔

تاہم ٹاسک فورس کا دائرہ کار محدود ہے اور نیپرا کو ریگولیٹری اتھارٹی کی حیثیت سے اضافی ادائیگیوں کی وصولی کرنی چاہیے۔ کمیٹی نے ان آئی پی پیز کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا جو 25 فیصد گنجائش پر کام کر رہے ہیں لیکن اب بھی مکمل گنجائش کی ادائیگیاں وصول کر رہے ہیں، ساتھ ہی 95 سے 85 فیصد گنجائش پر کام کرنے والے پلانٹس کا ڈیٹا بھی طلب کیا جو بعض اوقات مکمل یا جزوی گنجائش کی ادائیگی حاصل کرتے ہیں۔ کمیٹی نے یہ بھی درخواست کی کہ ان پلانٹس کی فہرست فراہم کی جائے جو کوئی بجلی پیدا نہیں کر رہے لیکن پھر بھی صلاحیت کی ادائیگیاں وصول کر رہے ہیں۔

معاون خصوصی برائے توانائی نے مزید آگاہ کیا کہ حکومت ہر پلانٹ کے لیے کیپیسٹی پیمنٹ فراہم کرے گی جن میں پلانٹ فیکٹر بھی شامل ہوگا۔ انہوں نے حکومت کے توانائی کے شعبے سے باہر نکلنے اور اس کا کنٹرول نجی شعبے کو سونپنے کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کیا۔ ٹاسک فورس آئی پی پیز کے ساتھ فعال طور پر مذاکرات کر رہی ہے تاکہ بچت حاصل کی جا سکے اور اس کے فوائد صارفین تک پہنچائے جا سکیں۔

بگاس کے بارے میں معاون خصوصی برائے توانائی علی محمد نے بتایا کہ دنیا کے دیگر حصوں میں بگاسے کا کوئلے کی بین الاقوامی قیمتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ٹاسک فورس نے کامیابی کے ساتھ بیگاس کو کوئلے کی قیمت سے الگ کیا اور روپے پر مبنی قیمتوں کے نظام کو اپنایا۔ اس تبدیلی کی سمری منظوری کے لیے کابینہ کو پیش کر دی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹاسک فورس 1994 اور 2002 کے معاہدوں کے دوران 17 آئی پی پیز کے ساتھ سرکاری پاور پلانٹس کے ساتھ بھی بات چیت کررہی ہے تاکہ بچت کی گئی رقم کی وصولی کی جا سکے۔ توقع ہے کہ یہ مذاکرات اگلے تین سے چھ ماہ میں مکمل ہوجائیں گے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف