یہ نیا فنانس ہدف انسانیت کے لیے ایک انشورنس پالیسی ہے، کیونکہ دنیا بھر میں موسمیاتی اثرات بدتر ہو رہے ہیں اور ہر ملک پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ لیکن کسی بھی انشورنس پالیسی کی طرح – یہ صرف اسی صورت میں کام کرتی ہے – اگر پریمیم کی پوری اور بروقت ادائیگی کی جائے۔

اربوں جانوں کے تحفظ کے لیے وعدے پورے کرنے ہوں گے۔ کلائمٹ ایگزیکٹو سیکرٹری سائمن سٹیل نے 24 نومبر 2024 کو باکو آذربائیجان میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس (سی او پی 29) کی اختتامی تقریب میں یہ بات کہی۔

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا کو درپیش چیلنجز بہت زیادہ اور کثیر الجہتی ہیں جن میں بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت، تباہ کن قدرتی آفات، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور معاشی عدم استحکام شامل ہیں۔

اس پس منظر میں کوپ 29 ان فوری مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر ابھرا جو عالمی موسمیاتی نظم و نسق میں ایک اہم لمحہ ہے۔ آذربائیجان میں 22 نومبر 2024 کو اختتام پذیر ہونے والی کوپ 29 کانفرنس نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کی جو کہ خاص طور پر موسمیاتی فنانسنگ کے حوالے سے تھی۔

اس کانفرنس کا محور موسمیاتی فنانسنگ کے لیے نیو کلیکٹو کوانٹیفائڈ گول (این سی کیو جی) کو حتمی شکل دینا تھا، جو گزشتہ 100 ارب ڈالر کے ہدف کا تسلسل ہے۔ مساوی مالیاتی میکانزم پر زور دے کر کوپ 29 کا مقصد کمزور ممالک کو موسمیاتی اثرات سے نمٹنے ایسی معیشتوں میں منتقلی کی کوششوں میں با اختیار بنانا ہے جو کاربن کا کم اخراج کرتی ہوں۔

اس کانفرنس کا موضوع قابل تجدید توانائی، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار ترقی کو عالمی حکمت عملیوں سے مربوط کرتے ہوئے اختراع، شمولیت اور نظامی تبدیلی کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

کوپ 29 کی صدارت کا بیان عالمی موسمیاتی اقدامات کیلئے ایک اہم لمحے کی نشاندہی کرتا ہے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی مالیات کے معاملے کو حل کرنے کی فوری ضرورت اور پیچیدگی دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔

2035 ء تک کم از کم 1.3 ٹریلین ڈالر سالانہ کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی کوششوں کے پیمانے اور دائرہ کار میں ایک مثالی تبدیلی کی نشاندہی ہے۔

گزشتہ 100 ارب ڈالر کے ہدف کے مقابلے میں یہ قابلِ ذکر اضافہ ان بدلتے ہوئے چیلنجز کو تسلیم کرتا ہے جن کا سامنا ممالک جیسے پاکستان کو ہے جو بڑھتی ہوئی موافقت اور تخفیف کی لاگتوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ جامع مشاورتی عمل اور پلیٹ فارمز نے اتفاق رائے کو فروغ دیا اور کوپ 29 کے نتائج کی قانونی حیثیت کو مضبوط کیا اور مختلف ترجیحات کی نمائندگی کو یقینی بنایا۔

پاکستان کے لیے یہ پیش رفت قومی ترجیحات کو عالمی عزائم سے ہم آہنگ کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔ 2035ء تک ترقی پذیر ممالک کے لیے مجوزہ 250 ارب ڈالر سالانہ مختص کرنا پاکستان کے لیے موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے تبدیلی کا راستہ فراہم کرتا ہے۔

عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں سے ایک ہے جو بار بار سیلاب، طویل خشک سالی اور ہیٹ ویو کا سامنا کر رہا ہے۔

آب و ہوا کے یہ جھٹکے نہ صرف لاکھوں افراد کو بے گھر کرتے ہیں بلکہ سماجی و اقتصادی عدم مساوات میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ یہ زراعت جیسے اہم شعبوں کے لیے بھی خطرہ ہیں جس سے ملک کی 40 فیصد آبادی روزگار حاصل کرتی ہے۔ موسم کا غیر یقینی مزاج غذائی تحفظ کیلئے بھی خطرہ ہے جبکہ شہری مراکز جیسے کہ کراچی اربن فلڈنگ اور ہیٹ آئی لینڈ کے اثرات کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں، جس سے فرسودہ انفرااسٹرکچر مزید متاثر ہوتا ہے۔

پاکستان کا زیادہ کاربن خارج کرنے والے شعبوں پر انحصار اس کے ماحولیاتی ردعمل میں پیچیدگی کا اضافہ کرتا ہے۔

انٹرنیشنل گروتھ سینٹر پاکستان کی سینئر کنٹری اکانومسٹ حنا شیخ نے آئی جی سی کی جانب سے شائع ہونے والے اپنے بلاگ میں کچھ حیران کن حقائق شیئر کیے کہ زراعت اور مینوفیکچرنگ خاص طور پر ٹیکسٹائل معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن کاربن کا اخراج میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

توانائی کا شعبہ، جس پر فوسل ایندھن کا غلبہ ہے، بنیادی توانائی کی فراہمی کا 40 فیصد ہے جبکہ قابل تجدید توانائی کا حصہ صرف 7 فیصد ہے۔

اگرچہ قائد اعظم سولر پارک جیسے اقدامات امکانات کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت کوئلے سے چلنے والے پلانٹس پر انحصار کم کاربن والے مستقبل کی طرف پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ صاف توانائی کی طرف منتقلی کے لیے انفراسٹرکچر میں نمایاں سرمایہ کاری، ورک فورس کی تربیت نو، اور قابل تجدید توانائی کے اپنانے کے لیے مراعات کی ضرورت ہوگی۔

اس کے ساتھ ساتھ کمزور انتظامی ڈھانچے ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت مرکزیت کا خاتمہ اور ماحولیات کی نگرانی کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں صوبے جیسے سندھ اور بلوچستان، جو سب سے زیادہ متاثر ہیں، خطرات کو مؤثر طریقے سے کم کرنے کے لیے مناسب وسائل یا تکنیکی صلاحیت سے محروم ہیں۔

قلیل مدتی سیاسی ترجیحات متحرک موسمیاتی اقدامات کو مزید کمزور کرتی ہیں کیونکہ غربت اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے جیسے فوری ترقیاتی چیلنجوں کو اکثر ترجیح دی جاتی ہے۔

بین الاقوامی موسمیاتی فنانسنگ تک رسائی جو کہ 2030 تک پاکستان کی اندازاً 348 ارب ڈالر کی موسمیاتی موافقت اور تخفیف کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے قرضوں کے بوجھ غیر مؤثر بیوروکریسی کے باعث محدود ہے۔

اس کے علاوہ، صنعتی اور توانائی کے لابیز کا اثر اہم رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ کوئلے اور تیل کے مفادات پر غلبہ رکھنے والی یہ لابیاں صاف توانائی کی طرف منتقلی کی مخالفت کرتی ہیں اور اقوام متحدہ کے کاربن کریڈٹ جیسے بین الاقوامی میکانزم کو اپنانے میں تاخیر کا باعث ہیں۔

موسمیاتی ایجنڈے کے مؤثر نفاذ میں کم فنانسنگ کے حامی گروپس کی جانب سے توازن کے فقدان نے انتظامی رکاؤٹوں کو اجاگر کیا ہے۔

کوپ 29 کے نتائج پاکستان جیسے ممالک کے لئے امید کی علامت ہیں۔ تجویز کردہ 1.3 ٹریلین ڈالر سالانہ عالمی موسمیاتی فنانس کے ہدف نے مشترکہ ذمہ داری پر زور دیا ہے، اس کے ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک پر پڑنے والے غیر متناسب اثرات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔

پاکستان کو ان میکانزم کی حمایت کرتے ہوئے نمایاں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جو ان فنڈز تک آسان رسائی کو یقینی بنائیں۔ بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے، پاکستان اپنے مخصوص چیلنجز کے مطابق گرانٹس اور قرضوں کی فراہمی حاصل کر سکتا ہے، جس سے وہ اہم شعبوں جیسے پائیدار زراعت، قابل تجدید توانائی، اور قدرتی آفات سے بچاؤ پر توجہ مرکوز کر سکتا ہے۔

پاکستان کی سب سے فوری ترجیحات میں سے ایک یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے توانائی کے منظرنامے کو تبدیل کرے۔ فوسل فیولز، جو کہ اخراج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اب بھی توانائی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں اضافہ، جیسے کہ سولر، ونڈ اور ہائیڈرو پاور، اخراج کو کم کرنے اور توانائی کی درآمدات پر انحصار کو کم کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔

حکومت کی جانب سے قابل تجدید توانائی کی ترقی کے لیے مراعات اور عوامی و نجی شراکت داری صاف ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتی ہیں۔ اسی دوران، صنعتوں اور شہری مراکز میں توانائی کی کارکردگی بڑھانے کے اقدامات پائیداری کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

زراعت، جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اہدافی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ آب و ہوا سے متعلق جدید زرعی طریقوں میں سرمایہ کاری، جیسے آبپاشی کے موثر نظام اور خشک سالی کے خلاف مزاحمت کرنے والی فصلیں، اہم ہیں۔

کاشتکاری کے عمل میں ٹیکنالوجی کو مربوط کرنے سے وسائل کے استعمال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور کاربن کے اخراج کو کم کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم اور فنانس تک رسائی کے ذریعے دیہی برادریوں کو بااختیار بنانے سے ان اصلاحات میں زیادہ جامع شرکت کو یقینی بنایا جاسکے گا، غذائی تحفظ کو مضبوط بنایا جائے گا جبکہ غیر یقینی موسمی پیٹرن سے نمنٹنے کے انتظامات کو فروغ ملے گا۔

شہری منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پاکستان کے موسمیاتی ردعمل میں یکساں طور پر اہم ہیں۔ تیزی سے شہر کاری نے کراچی جیسے شہروں کو سیلاب، ہیٹ ویو اور خراب ہوا کے معیار کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

گرین بلڈنگز اور بہتر پبلک ٹرانسپورٹ سمیت پائیدار شہری انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان اخراج کو کم کرتے ہوئے اپنے شہروں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے بہتر کرسکتا ہے۔

شہروں میں سبز مقامات، چھتوں پر باغات اور بارش کے پانی کو جمع کرنے کے نظام کو متعارف کرانے سے ہیٹ آئی لینڈ کے اثرات کو کم کیا جاسکے گا اور شہری علاقوں میں پانی کے انتظام کو بہتر بنایا جاسکے گا۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور کاربن میں تخفیف کے چیلنجز تکنیکی حل سے آگے تک پھیلے ہوئے ہیں۔

ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے گورننس اور پالیسی سازی میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی پالیسیوں کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین تعاون کو مضبوط بنانا انتہائی ضروری ہے۔

وفاقی فنانس اتھارٹی کے قیام سے فنڈز کی تقسیم میں آسانی پیدا ہوگی، پیش رفت کی نگرانی ہوگی اور شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے گا۔

ہر سطح پر ترقیاتی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی میں موسمیاتی معاملات کو شامل کرنے سے پاکستان کی ترقی کے راستے میں پائیداری کو شامل کیا جاسکے گا۔

بین الاقوامی موسمیاتی فنانس تک رسائی پاکستان کی موسمیاتی حکمت عملی کا ایک سنگ بنیاد ہے۔

شفاف رپورٹنگ میکانزم اور موسمیاتی کمزوریوں کے ٹھوس ثبوت کے ذریعے رعایتی فنڈنگ کے لیے ایک مضبوط کیس تیار کرنا پاکستان کی عالمی مذاکرات میں پوزیشن کو بہتر بنا سکتا ہے۔

دوسرے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرنے سے کوپ جیسے عالمی فورمز پر اجتماعی ’سودے بازی‘ کی طاقت کو تقویت مل سکتی ہے۔ مزید برآں پاکستان کو گرین پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر نجی شعبے کے ساتھ فعال طور پر شامل ہونا چاہئے۔

تعلیم اور عوامی بیداری طویل مدتی موسمیاتی اہداف کے حصول کے لئے اہم ہیں۔ موسمیاتی تعلیم کو اسکولوں کے نصاب میں شامل اور قومی آگاہی مہم شروع کرکے پاکستان ماحولیاتی ذمہ داری کے کلچر کو فروغ دے سکتا ہے۔ نوجوانوں اور کمیونٹی کے رہنماؤں کو پائیدار طریقوں کے سفیر کے طور پر شامل کرنا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے انتظامات میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔ کلائمٹ ایڈووکیسی گروپس کو مضبوط بنانے سے پالیسی مباحثوں میں پائیداری کے لئے ایک مضبوط آواز کو یقینی بنایا جائے گا۔

پاکستان ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں غیر فعال رہنے کے نتائج سنگین ہیں تاہم تبدیلی کے امکانات بے حد وسیع ہیں۔

کوپ 29 کے جذبے کو اپنانے اور بین الاقوامی موسمیاتی فنانس میکانزم کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اپنی کمزوریوں پر قابو پاسکتا ہے اور عالمی موسمیاتی اہداف میں مؤثر طور پر حصہ ڈال سکتا ہے۔ حکومتی انتظامیہ کو مضبوط کرنا، اختراعات کو فروغ دینا اور عوامی و نجی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا پائیدار مستقبل کے لیے ضروری ہوگا۔

عالمی حمایت کو مقامی کوششوں کے ساتھ یکجا کرنا پاکستان کو اپنے موسمیاتی چیلنجز حاصل کرنے میں مدد دے گا، جس سے آنے والی نسلوں کے لیے موسمیاتی ذمہ داری اور سماجی و اقتصادی استحکام کی میراث کو یقینی بنایا جا سکے گا۔

Comments

200 حروف