وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کے معاشی منظرنامے کو تبدیل کرنے کے لئے ایک ”مقامی منصوبہ“ پیش کرنے جا رہی ہے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دروازے پر دوبارہ دستک نہ دی جا سکے۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) کے زیر اہتمام 26 ویں قومی سلامتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے معاشی منظر نامے کو تبدیل کرنے کے لئے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی اور اقتصادی سلامتی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے پاس مضبوط معیشت، تیزی سے بڑھتی ہوئی برآمدات اور صنعتی شعبے میں توسیع ہو تو ہماری اقتصادی سلامتی خود بخود مضبوط ہو جائے گی۔

شہباز شریف نے ایک جامع چارٹر آف اکانومی کے نفاذ کے لئے حکومت کے عزم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 2018 میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھی یہ خیال پیش کیا تھا اور “ہم اب اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں۔

انہوں نے تمام سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی نجکاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ “حکومت کو کاروبار سے باہر جانا چاہئے کیونکہ اس کا مینڈیٹ صرف نجی کاروباروں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کھربوں روپے بچانے کے لیے کاروبار کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہیے، تمام ادارے ایک پیج پر ہیں اور وہ اور آرمی چیف بھی اس معاملے پر مکمل طور پر ساتھ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج جو جمعرات کو ایک لاکھ پوائنٹس سے تجاوز کر گئی وہ ٹیم ورک اور وفاقی حکومت اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان قریبی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔

شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ دارالحکومت میں احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ روز تقریبا 4 ہزار پوائنٹس کی شدید گراوٹ دیکھی گئی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئے تو مارکیٹ بحال ہوئی اور ایک لاکھ پوائنٹس تک پہنچ گئی جو ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو اب بھی متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ جون 2023 میں یہ ٹچ اینڈ گو تھا کیونکہ پاکستان مختلف وجوہات کی بنا پر ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا جو ہم سب جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب اسٹینڈ بائی معاہدے کی وجہ سے معیشت کو بحران سے نکالنے میں کامیاب رہی، اس پروگرام سے عوام کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ معاشی چیلنجز کے علاوہ ملک کو سیکیورٹی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریبا 80 ہزار افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور معاشی نقصانات 130 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی لعنت کو مکمل طور پر شکست دے دی گئی ہے لیکن یہ دوبارہ ابھر کر سامنے آئی ہے اور اپنا مکروہ چہرہ دکھا رہی ہے کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر افسوسناک واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چند روز قبل پاراچنار میں جو کچھ ہوا اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات […]یہ کچھ ایسی چیزیں ہیں جنہیں ہمیں فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔

سوال و جواب کے سیشن کے دوران انہوں نے کہا کہ جب تک ہم معاشی نمو میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کریں گے، بیرونی قرضوں کے خلا کو پر نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے وسائل خود پیدا کرنے ہوں گے۔

اندرونی قرضوں کے چیلنج کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ پاور سیکٹر کا ہے کیونکہ بجلی کا گردشی قرضہ ڈھائی کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے اور گیس کا گردشی قرضہ بھی لیکیج، مینجمنٹ اور سسٹم میں خلا اور چوری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کھربوں روپے کی ٹیکس چوری کی اطلاعات مل رہی ہیں جنہیں ہر قیمت پر روکنے کی ضرورت ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف