وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری بورڈ، نجکاری اور مواصلات علیم خان نےاہم ہدایات جاری کی ہیں، جن میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) اور خیبر پختونخوا کے صنعتی زونز کے مسائل فوری حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے قومی گرڈ سے ان زونز کو تین دن کے اندر بجلی کے کنکشن فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ مزید برآں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو سرمایہ کاروں کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک فوکل پرسن تعینات کرنے اور سرمایہ کاروں کو درپیش تمام پیچیدگیوں اور خدشات کو دور کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یہ ہدایات برآمد کنندگان (خصوصاً سیاسی طور پر بااثر آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن) اور دیگر بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کے شعبوں کی جانب سے مالی اور مانیٹری مراعات کی بحالی کے لیے کی جانے والی وقتاً فوقتاً اپیلوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ شعبے،( جو مراعاتی نجی شعبے کے قرضے کے بڑے وصول کنندگان ہیں،) اقتدار کے ایوانوں میں اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں، مگر اب تک ان کی درخواستوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
دو اہم مشاہدات قابل ذکر ہیں: (i) پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے) کی بولی میں حالیہ ناکامی، جس کے بارے میں وزیر نے شاید درست طور پر تمام ذمہ داری سے انکار کیا،یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ جن کے پاس وزارت کا قلمدان ہوتا ہے، وہ حقیقت میں ہدایات جاری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، لیکن ان ہدایات کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنانے کی طاقت ان کے پاس نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ یہ ناکامی اکتوبر 2024 کے اوائل میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جاری قرضے سے متعلق دستاویزات میں حکومت کے بیان کردہ دعوے کی تردید کرتی ہے کہ “حال ہی میں، حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری پر بھی خاطر خواہ پیش رفت کی ہے، جو اپنے آخری مراحل میں ہے۔اور (2) جیسے کہ ہمیشہ ہوتا ہے، پی آئی اے کے ناکامی کے ذمہ داروں کو شناخت کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی کوئی ہدایت کبھی جاری نہیں کی گئی، جو کہ مستقبل میں اس طرح کی شرمناک ناکامیوں کو روکنے کے لیے ایک مؤثر تدبیر ہو سکتی تھی۔
کیا علیم خان کی ہدایات یا صنعت کے مطالبات قابل عمل ہیں؟ ان ہدایات/مطالبات کے پیچھے ستم ظریفی یہ ہے کہ ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو وزیر، نہ ہی وزارت کے حکام اور نہ ہی نجی صنعتی شعبے نے ان دستاویزات کو پڑھنے کی زحمت اٹھائی ہے جن میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد کی جانب سے جاری پروگرام کے تحت آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط کی تفصیل دی گئی ہے۔
اس دستاویز میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ”سبسڈیز نے کم لاگت کی فنانسنگ اور دیگر مراعات کی شکل اختیار کرلی ہے، جو اگرچہ صنعتوں میں مختلف ہیں،تاہم سبسڈیز کے بعد مالی اعانت اور ٹیکسز ایسی معیشتوں اور کم ترجیحی شعبوں کے مقابلے میں زیادہ سازگار تھے۔“
ٹیکس نظام کو غیر شفاف معاونت فراہم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے، جس میں رئیل اسٹیٹ، زراعت، صنعت اور توانائی جیسے مراعاتی شعبوں کے لیے استثنات شامل ہیں، ساتھ ہی خصوصی اقتصادی زونز کے پھیلاؤ کے ذریعے بھی یہ معاونت فراہم کی گئی ہے۔
حکومت کی قیمتوں کے تعین میں مداخلت، جیسا کہ زرعی اجناس، ایندھن کی مصنوعات، بجلی اور گیس (ہر چھ ماہ) کے معاملات میں، اور بلند ٹیرف و غیر ٹیرف تحفظات نے مخصوص گروہوں یا شعبوں کے حق میں حالات کو جھکا دیا۔
تمام تر معاونت کے باوجود، کاروباری شعبہ معیشت کی ترقی کا محرک بننے میں ناکام رہا۔ یہ مراعات نہ صرف مسابقت کو کمزور کرنے کا باعث بنیں بلکہ وسائل کو دائمی طور پر غیر مؤثر صنعتوں میں جکڑ دیا، جن میں کچھ صنعتیں ہمیشہ ”ابتدائی“ کے درجے پر ہی رہ گئیں۔
پاکستانی حکام نے لیٹر آف انٹنٹ (ایل او آئی) میں جو وعدہ کیا تھا، جس کے تحت جاری ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلیٹی پروگرام کی منظوری ملی، وہ کچھ یوں تھا:“حکام کسی بھی نئے یا موجودہ خصوصی اقتصادی زونز کے لیے نئے مالیاتی مراعات فراہم کرنے سے گریز کریں گے اور موجودہ مراعات کی تجدید نہیں کریں گے، کیونکہ ایس ای زیڈز پہلے سے موجود کاروباری رکاوٹوں کے عارضی حل کے طور پر بنائے گئے ہیں۔ آئندہ کوئی نیا ایس ای زیڈ یا ایکسپورٹ پروسیسنگ زون (ای پی زیڈ) بھی قائم نہیں کیا جائے گا (اس میں صوبائی حکومتیں بھی شامل ہیں)۔ اس کے علاوہ جون 2025 کے آخر تک (اسٹرکچرل بینچ مارک) حکام 2035 تک تمام موجودہ ایس ای زیڈ مراعات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے کیے گئے جائزے کی بنیاد پر ایک منصوبہ تیار کریں گے، جو پہلے سے موجود معاہدے کی ذمہ داریوں سے مشروط ہے۔
2024 سے 2035 کے عبوری دور میں، حکام پہلے سے موجود منافع پر مبنی مراعات (جیسے ٹیکس استثنیٰ) کو لاگت پر مبنی مراعات (جیسے مادی اثاثوں پر فوری اخراجات کی سہولت) سے تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے، تاہم یہ تبدیلی موجودہ قانونی معاہدوں کی مکمل پاسداری کے ساتھ مشروط ہوگی۔
ان معاملات میں جہاں معاہداتی شرائط موجودہ خصوصی اقتصادی زونز کی مراعات کے جلد خاتمے یا دوبارہ مذاکرات کی اجازت دیتی ہیں، حکام ان مراعات کو قانونی دائرے میں رہتے ہوئے بتدریج ختم کریں گے۔ اس کے علاوہ ایس ای زیڈز کو دی جانے والی کوئی نئی مالی یا دیگر مراعات کسی بھی فرم، شعبے یا سرمایہ کاروں کو فراہم نہیں کی جانی چاہئیں۔
حکومت نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے عمل پر نظرثانی کی درخواست کو مسترد کیا ہے تاہم یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ “سرمایہ کاری کے ماحول میں برابری کی سطح کو یقینی بنایا جائے اور گورننس کے معیار میں کمی سے بچا جائے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments