بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے نئی کثیر الجہتی فنانسنگ کی بڑھتی ہوئی اور سخت شرائط کی وجہ سے پاکستان میں سماجی بدامنی کے خطرے سے خبردار کیا ہے، مالی سال 25 کی پہلی سہ ماہی کے دوران سود کی لاگت مجموعی اخراجات کا 40 فیصد ہے۔ یہ وضاحت بالکل درست ہے، اب پچھلے کیے کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مختلف حکومتوں کی جانب سے انتخابات کے قریب سیاسی سرپرستی اور غیر منطقی اخراجات کے ساتھ ساتواں این ایف سی ایوارڈ جہاں اخراجات واجبات کی تقسیم کے بغیر صوبوں میں مرکوز ہیں، نے مراعاتی ڈھانچے کو کمزور کردیا ہے۔ اس سے قرضوں کی ادائیگی کا مجموعی بوجھ وفاقی ٹیکسز پر منتقل ہوگیا ہے۔

زیادہ قرضوں کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوا اور قوت خرید میں کمی واقع ہوئی، قرضوں کی ادائیگی میں اضافے کی وجہ سے تنخواہ دار افراد اور کارپوریشنز پر ٹیکس شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

کم ٹیکس کی تعمیل کے باعث بوجھ چند افراد پر غیرمتناسب طور پر پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر سب سے زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ توانائی شعبے میں نااہلی اور بہت زیادہ آئی پی پیز کی اضافی صلاحیت کا بوجھ مزید مشکلات پیدا کرتا ہے۔

جو لوگ اس بدانتظامی کے ذمہ دار ہیں وہ ایک متنازعہ عام انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کا یہ ماننا ہے کہ ان کا مینڈیٹ چوری ہوگیا ہے۔

یہ تمام عوامل وہ خطرات ہیں جن کا ذکر ریٹنگ ایجنسی کر رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیرونی مالی خلا کی فنانسنگ روز بروز مشکل ہوتی جا رہی ہے، اور حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے لیے اور اپنی کریڈٹ ریٹنگ کو بہتر بنانے کے لیے کئی سال تک پرائمری فِسکل سرپلس برقرار رکھنا ضروری ہوگا۔

یہ عمل تکلیف دہ ہوگا، اور ترقی کو دوبارہ زندہ کرنے میں چند سال لگ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے اپنے نئے دستاویز میں نجی کریڈٹ کی آمدنی کی پیشگوئی کم کی ہے اور ترقی کی پیشگوئی کو بھی نیچے کیا ہے—جو پہلے مالی سال 2026 میں 5 فیصد تھی، اب اسے مالی سال 2028 میں بمشکل 4.5 فیصد تک محدود کیا گیا ہے۔

اس دوران، جی ڈی پی کی شرح نمو بمشکل آبادی کی شرح نمو کے برابر ہوگی، جس سے فی کس جی ڈی پی میں جمود آ جائے گا اور سماجی ترقی محدود ہوگی۔ قوت خرید کو پہنچنے والا نقصان پہلے ہی نظر آ رہا ہے کیونکہ ہر سطح پر طرز زندگی میں تبدیلی آئی ہے۔ لوگ اپنی حقیقی آمدنی کے کم ہونے کے باعث خرچ کرنے میں ترجیحات بدل چکے ہیں۔ مالی سال 2021 سے 2024 تک، خوراک کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہوا اور مسلسل دو سال تک افراط زر کی شرح 20 فیصد سے زیادہ رہی۔

مہنگائی میں کمی آرہی ہے، لیکن حقیقی آمدنی کی شرح نمو بہت سست ہے کیونکہ معاشی ترقی کم ہو گئی ہے۔ قوت خرید آہستہ آہستہ بحال ہو گی، مگر بیرونی بحران کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے، جو اس کمزور بحالی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومتی اشرافیہ اور عوام کے درمیان خلا بڑھ رہا ہے۔

سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ اشرافیہ میں کفایت شعاری کہیں نظر نہیں آ رہی ۔ ان کی فضول خرچی بدستور جاری ہے۔ حکومت اور اداروں کے غیر مؤثر اخراجات میں کمی لانے کا کوئی عزم نظر نہیں آتا، اور نہ ہی غیر ٹیکس دہندگان پر ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آمدنی اور ٹیکس کی تعمیل میں عدم مساوات کی وجہ سے معاشرے کے مختلف طبقوں میں اضطراب بڑھ رہا ہے۔ مڈل کلاس سکڑ رہی ہے، اور پسماندہ لوگ زیادہ کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔

حکومت اور ریاست کو اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنا چاہئے۔ معاشی حالات مشکل ہیں اور مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا فقدان ہے۔

ان کے بغیر ترقی کرنا مشکل ہے اور سماجی بدامنی کا خطرہ صرف بڑھ سکتا ہے۔ یہ ایک ٹک ٹک بم ہے، اور ریاست مظاہروں کو روکنے کے لئے سڑکوں اور انٹرنیٹ کو بند کرنے میں مصروف ہے۔ یہ صرف دباؤ کو بڑھاتا ہے۔ تبدیلی کے لئے عوام کے مطالبے کو نظر انداز کرنے کے نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ “جو لوگ پرامن انقلاب کو ناممکن بناتے ہیں وہ پرتشدد انقلاب کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف