پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے مستقبل میں گیس کی 35 فیصد دریافتوں کو مسابقتی بولی کے عمل کے ذریعے نجی کمپنیوں کو فروخت کرنے کے فیصلے کے فوائد اورنقصانات جو بھی ہوں، کوئی اس طرح کے اقدامات کو سنجیدگی سے کیسے لے سکتا ہے جب چین آف کمانڈ کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے تاکہ اس کی تعمیل کو آسان بنایا جا سکے؟ معلوم ہوا ہے کہ یہ فیصلہ وزیر پیٹرولیم مصدق ملک کے علم میں لائے بغیر وزیر خارجہ/ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس نے کیا تھا۔
یہ وسیع پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے کہ نائب وزیر اعظم اور وزیر توانائی کے درمیان اس اقدام پر جاری مالی سال کے بیشتر حصے میں اختلافات رہے، اور آخرکار نائب وزیراعظم اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ حالانکہ تجاویز اور فیصلوں کو حتمی شکل دینے کے لئے توانائی کا شعبہ وزیر توانائی کا ڈومین ہے۔ درحقیقت وزیر توانائی نے ”مختلف پالیسی فیصلوں پر انہیں اعتماد میں نہ لینے“ پر بیوروکریسی کے اعلیٰ حکام کو اپنی ناراضگی سے آگاہ کیا، جیسا کہ پریس میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے۔
یقینی طورپر یہ نہ صرف اس خاص اقدام پربلکہ خود حکومت کی کارکردگی پربھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار – جنہیں حکومت اس طرح کے اقدامات کے ذریعے راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے – وہ وسیع پیمانے پرجانچ پڑتال کے بغیرکبھی بھی سنجیدگی سے سرمایہ لگانے کے لئے تیارنہیں ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ حکومت کے اندرایک دراڑبھی دکھائی دیتی ہے، جس میں حکومتی خاندان کا پسندیدہ سیاستدان (اسحاق ڈار) حکومت کے اپنے وزیروں کو نظر انداز کرتا ہے،،یہ بات ممکنہ طور پر ذہین سرمایہ کاروں کو خوش نہیں کرے گی۔
پھر بھی اوپن نیلامی موڈ میں تھرڈ پارٹی خریداروں کو زیادہ سے زیادہ 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فروخت کی اجازت دینے کا فیصلہ، جسے ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کمپنیاں پہلے آؤ، پہلے پاؤ کی بنیاد پر حاصل کریں گی، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے معدنی وسائل کے شعبے میں راغب کرنے کے لئے وسیع تر ایس آئی ایف سی (خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل) فریم ورک کا حصہ ہے۔ ابتدائی طور پر مسابقتی بولی کے ذریعے قدرتی گیس فروخت کرنے کی تجویز رواں سال فروری میں نگران حکومت کے آخری دنوں میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے منظور کی تھی اور سوئی کمپنیوں کو مستقبل میں گیس کی دریافتوں میں 65 فیصد حصص کی ضمانت دی تھی۔
فی الحال یہ کمپنیاں ای اینڈ پی کمپنیوں سے 100 فیصد گیس حاصل کرتی ہیں لیکن باقاعدگی سے ان کی ادائیگی کرنے میں ناکام رہتی ہیں جس کے نتیجے میں ان پر 1.5 ٹریلین روپے واجب الادا ہیں۔ لیکویڈیٹی کا یہ بحران مذکورہ کمپنیوں کی ای اینڈ پی سرگرمیوں میں شدید رکاوٹ بن رہا ہے، جس سے ممکنہ طور پر 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن اس بات پریقین رکھتی ہے کہ مجوزہ فریم ورک اس شعبے کو آزاد بنانے اورنجی کمپنیوں کو کھلی بولی کے ذریعے ای اینڈ پی کمپنیوں سے براہ راست گیس خریدنے کی اجازت دینے کے لیے ضروری ہے۔
لیکن وزیر پیٹرولیم اس بات سے متفق نظرآتے ہیں کہ اگر ای اینڈ پی کمپنیاں نجی شعبے کو اپنی گیس فروخت کرنے کو ترجیح دیتی ہیں تو سوئی کمپنیوں کو قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم نے اپنا طریقہ اخیتارکرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہارکیا، جس کے تحت پیٹرولیم ڈویژن نے واضح کیا کہ صرف 35 فیصد گیس نجی کمپنیوں کیلئے مختص کی جائے گی جبکہ بقیہ 65 فیصد سوئی کمپنیوں کو فروخت کی جائے گی تاکہ وہ اپنے صارفین کو فراہمی جاری رکھ سکیں۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ تھرڈ پارٹیز کو زیادہ سے زیادہ فروخت 100 ایم ایم ایف سی ڈی کی ہوگی۔
یہ اقدام کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، یقینا یہ دیکھنا باقی ہے، لیکن جس طرح سے اس کی منظوری دی گئی ہے، اس میں بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومتی جماعت کی نجکاری کے اقدامات اوردیگرمعاملات میں شہرت اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ تفصیلی جانچ پڑتال کا سامنا کرسکے۔
اوراس معاملے میں بھی ابھی تک کسی نے 65 اور 35 فیصد کی تقسیم کی بنیاد کو واضح نہیں کیا ہے۔ اس لیے بہترہوگا کہ قبل از وقت خوشی منانے سے پہلے اس اقدام کی تفصیل سے وضاحت کی جائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اصلاحات کو شفاف اور ہموار طریقے سے نافذ کیا جانا چاہئے ۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments