، باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ پیٹرولیم ڈویژن نے ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل (ایکنک) کے لیے ایک سمری تیار کی ہے تاکہ تیسرے فریق کو اوپن آکشن طریقہ کار کے ذریعے 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی زیادہ سے زیادہ فروخت کی اجازت دینے پر تبصرے کئے جائینگے۔ جیسے ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کمپنیاں پہلے آؤ پہلے پاؤ کی بنیاد پر تلاش کریں گی۔
18 نومبر 2024 کو، ایک علی سطح بین الوزارتی کمیٹی جس کی صدارت نائب وزیراعظم/وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی، نے پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے پیش کردہ تجویز کی منظوری دی۔
ذرائع نے تفصیلات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ابتدا میں، تیسرے فریق کو قدرتی گیس فروخت کرنے کے لیے مسابقتی بولی کے عمل کو کیئر ٹیکر حکومت کے تحت فروری 2024 میں کونسل آف کامن انٹریسٹز (سی سی آئی) نے منظور کیا تھا جس کی قیادت سابق نگراں وزیر اعظم انور الحق کاکڑ کر رہے تھے۔
سی سی آئی کی منظوری کے مطابق یہ ضمانت دی گئی تھی کہ سوئی کمپنیوں کو مستقبل میں ہونے والی دریافتوں سے 65 فیصد گیس بغیر کسی بولی کے عمل کے ملے گی۔ اس وقت کمپنیاں ای اینڈ پی کمپنیوں سے 100 فیصد گیس حاصل کرتی ہیں لیکن انہیں مناسب طریقے سے معاوضہ نہیں مل رہا، جس کے نتیجے میں 1.5 کھرب روپے کے واجبات جمع ہو گئے ہیں۔ شدید لیکویڈیٹی بحران کی وجہ سے ای اینڈ پی کمپنیاں اپنی تلاش اور پیداوار کی سرگرمیاں جاری رکھنے سے قاصر ہیں، جس سے 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن نے دستیاب دستاویزات کا جائزہ لیا اور یہ تجویز کی کہ اپ اسٹریم سیکٹر کو آہستہ آہستہ لبرلائز کرنے اور ای اینڈ پی سیکٹر میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے یہ تجویز قابل عمل ہے، تاکہ کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی واپسی کی ضمانت دی جا سکے۔
بین الوزارتی کمیٹی کے پچھلے اجلاس میں اسحاق ڈار نے پیٹرولیم ڈویژن کو ہدایت دی تھی کہ وہ صنعت کے ساتھ مشاورت کرکے فریم ورک کو حتمی شکل دے تاکہ ای اینڈ پی کمپنیاں اپنی 35 فیصد گیس تیسرے فریق کو فروخت کر سکیں اور یہ فریم ورک کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل، ڈاکٹر مصدق مسعود ملک اور پیٹرولیم ڈویژن کی موجودہ بیوروکریسی کی قیادت کے درمیان اس تجویز پر اختلاف رائے تھا کیونکہ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار سے سوئی گیس کمپنیوں کو گیس کی کمی کا سامنا ہوگا کیونکہ ای اینڈ پی کمپنیاں اپنی گیس کو نجی شعبے کو فروخت کرنے کو ترجیح دیں گی۔
تاہم، بیوروکریسی کا موقف تھا کہ اس طرح کا فریم ورک ضروری ہے تاکہ سیکٹر کو لبرلائز کیا جا سکے اور نجی شعبے کو ای اینڈ پی کمپنیوں سے گیس خریدنے کی اجازت دی جا سکے۔
ذرائع کے مطابق وفافی وزیر کا مؤقف منطقی تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ دریافت شدہ گیس کا 35 فیصد نجی شعبے کو مختص کیا جائے گا اور باقی 65 گیس فیصد سوئی کمپنیوں کو فروخت کی جائے گی تاکہ وہ اپنے صارفین کو خدمات فراہم کر سکیں۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ تیسرے فریق کو گیس کی زیادہ سے زیادہ فروخت کسی صورت میں 100 ایم ایم سی ایف ڈی سے زیادہ نہیں ہوگی۔
ذرائع کے مطابق سمری کو اسحاق ڈار کی قیادت میں کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں حتمی شکل دے دی ہے اور اس پر تبصرے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کو بھیج دیا ہے، اس سے پہلے کہ اسے ایکنک کے سامنے پیش کیا جائے۔
29 جنوری 2024 کو، سی سی آئی نے پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے پیش کردہ ”پیٹرولیم (ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن) پالیسی 2012 میں ترمیمات“ کی سمری پر غور کیا اور پیٹرولیم (ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن) پالیسی 2012 کے پیراگراف 9.4(2) کے متن میں ترمیمات کی منظوری دی تھی، اس شرط کے ساتھ کہ ای اینڈ پی کمپنیوں کو اپنی پائپ لائن اسپیسیفکیشن گیس کا 35 فیصد تیسرے فریق کو مسابقتی عمل کے ذریعے فروخت کرنے کا حق ہوگا۔
اس شق کا اطلاق پیٹرولیم (ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن) رولز 1986، 2001، 2009 اور 2013 کے تحت دی گئی تمام موجودہ لائسنسز/لیزز پر ہوگا جن کے گیس کے ذخائر ابھی تک مختص نہیں کیے گئے ہیں اور وہ سی سی آئی کی منظوری کے بعد مختص کیے جائیں گے۔
سی سی آئی نے مزید فیصلہ کیا تھا کہ جس صوبے میں قدرتی گیس کا ویل ہیڈ واقع ہو، اسے آئین کے آرٹیکل 158 کے مطابق ترجیح دی جائے۔ پیٹرولیم ڈویژن گیس کی تیسرے فریق کو فروخت کرنے کے لیے فریم ورک تیار کرے اور ایکنک کے غور کے لیے پیش کرے۔
سی سی آئی کے فیصلے کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن کوایکنک کی منظوری کے لیے فریم ورک تیار کرنا تھا۔
ذرائع نے کہا کہ تجویز کردہ فریم ورک درحقیقت سی سی آئی کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا طریقہ کار ہے۔ اس میں یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ پروڈیوسرز اپنی گیس کی فروخت کے لیے مسابقتی عمل سے گزریں گے۔ بیچنے والے اور خریدار دونوں کو اوگرا یا کسی اور مجاز اتھارٹی سے ضروری منظوری اور لائسنس حاصل کرنا ہوں گے۔
تیسرے فریق کے خریدار سوئی نیٹ ورک استعمال کرنے یا اپنی پائپ لائنیں بچھانے کا اختیار رکھیں گے۔ اگر کسی تکنیکی یا تجارتی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو تو وہ ورچوئل پائپ لائنز استعمال کر سکتے ہیں لیکن تمام معاملات میں متعلقہ ضوابط اور قواعد پر عمل کرنا ہوگا۔
سوئی کمپنیاں 60 دنوں کے اندر ٹرانسپورٹیشن کی درخواستوں کا فیصلہ کریں گی۔ ایک مضبوط میٹرنگ سسٹم لگایا جائے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ صرف منظور شدہ مقدار ہی فروخت کی جا رہی ہے اور اس کی روزانہ اور ماہانہ رپورٹنگ کی جائے گی۔
فریم ورک کے مطابق 35 فیصد تیسرے فریق کی گیس کی فروخت کا اطلاق پیٹرولیم (ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن) رولز 1986، 2001، 2009 اور 2013 کے تحت دی گئی تمام موجودہ لائسنسز/لیزز پر ہوگا جن کے گیس ذخائر ابھی تک مختص نہیں کیے گئے ہیں۔
ای اینڈ پی کمپنیاں تیسرے فریق کو فروخت کے لیے گیس کی درست مقدار فیصد میں ظاہر کریں گی۔ گیس کی معیار اوگرا کے معیار پر پورا اُترنی چاہیے۔
تیسرے فریق کے خریدار کو اوگرا کے لائسنس یافتہ ہونا ضروری ہے۔
تیسرے فریق سے چارج کی جانے والی قیمتیں اوگرا کے ذریعہ مخصوص علاقوں کے لیے نوٹیفائی کی جانے والی ’ویل ہیڈ گیس قیمت‘ سے کم نہیں ہوں گی۔
مالیاتی واجبات اور دیگر حکومتی وصولیوں کو یقینی بنانے کے لیے، تیسرے فریق (خریدار) اور بیچنے والے (ای اینڈ پی کمپنیاں) کے درمیان گیس فروخت اور خریداری کے معاہدے (جی ایس پی اے) کی دستخط شدہ کاپی اتھارٹی کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔
جی ایس پی اے میں گیس کی قیمت، معیار، روزانہ اور ماہانہ معاہدہ شدہ حجم شامل ہونا چاہیے۔
ای اینڈ پی کمپنیاں تیسرے فریق کے کسٹڈی ٹرانسفر پوائنٹ پر میٹرنگ کی سہولت نصب کریں گی۔
تیسرے فریق کے اس خریدار کو ترجیح دی جائے گی جو گیس کو اسی صوبے میں استعمال کرے گا جہاں ویل ہیڈ واقع ہو، بشرطیکہ وہ خریدار سب سے زیادہ بولی کی قیمت پر خریداری کرے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments