وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اتوار کو اپنی پریس بریفنگ کے دوران نو ماہ کی اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پوسٹ اسٹاف لیول معاہدے کے نفاذ کی کوششوں کو سراہا اور اس کا کریڈٹ نگران حکومت کو دیا۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ اس بار حکومت توانائی کے شعبے، سرکاری اداروں، نجکاری اور بجٹ میں شامل تمام ٹیکسز کی وصولی کے سلسلے میں اصلاحات کے نفاذ سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ پالیسیاں مقامی سطح پر تیار کی گئی ہیں۔ دو واضح مگر تشویشناک نکات پر غور ضروری ہے۔
سب سے پہلے یہ بات واضح ہے کہ جاری اصلاحات عام طور پر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی روایتی شرائط کی عکاسی کرتی ہیں، جو پاکستان نے ماضی کے بیشتر (23) پروگرامز میں قرض دہندگان سے وعدہ کیں، لیکن سیاسی مصلحتوں کی بنا پر ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا (موجودہ اخراجات میں ایک سال سے دوسرے سال تک اضافے کو محدود کرنا، جو مستقل اشرافیہ کے کنٹرول کو ظاہر کرتا ہے، جیسا کہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں 21 فیصد ناقابل وضاحت اضافہ ظاہر کرتا ہے)، اسی طرح نجکاری کا عمل، جسے ہر سال ملتوی کیا جاتا رہا ہے، مقامی اور بین الاقوامی سطح پر مطلوبہ سرمایہ کاری کے ماحول کی کمی کی وجہ سے تاخیر کا شکار رہا(پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کی حالیہ نیلامی کی ناکامی اس کی واضح مثال ہے) مزید برآں، ماضی کی نجکاری کے طریقوں پر تحقیقی مطالعہ کرنے سے انکار کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں نجکاری کیلئے کوئی مؤثر حکمت عملی اپنائی جاسکے(مثال کے طور پر کےالیکٹرک اب بھی ٹیرف مساوات سبسڈی پر انحصار کرتی ہے، جو اس سال قومی ٹیکس دہندگان کے خرچ پر 171 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے) اس کے علاوہ بالواسطہ ٹیکسز پر بھاری انحصار (جو تمام محصولات کا 75 سے 80 فیصد حصہ بنتے ہیں جو غریب طبقے پر امیر طبقے کے مقابلے میں زیادہ بوجھ ڈالتا ہے) اور یہ ملک میں 41 فیصد کی انتہائی تشویشناک غربت کی بنیادی وجہ ہے۔
یہ کہنا مقصود نہیں کہ آئی ایم ایف کے ڈیزائن میں موجود خامیوں کے اثرات کو نظرانداز کیا جائے، جنہیں مختلف حکومتیں، بشمول موجودہ حکومت، مسلسل نافذ کرتی رہی ہیں۔ خاص طور پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ شعبے کی غیر مؤثریت پر قابو پانے کی بجائے ٹیرف میں اضافہ کر کے مکمل لاگت کی وصولی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان کو ان کے وفاداروں سے تبدیل کر کے تعینات کیا گیا ہے،جس کا کارکردگی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ دوسرے الفاظ میں، نہ تو موجودہ حکومت میں اور نہ ہی ایس بی اے کے دوران مقامی اصلاحات کا کوئی عنصر نظر آتا ہے، جیسے کہ غیر زر مبادلہ ذخائر میں بہتری کی بجائے قرضوں میں اضافہ، تجارتی خسارے میں کمی جو درآمدات پر پابندیوں کی وجہ سے آئی، اور آئی ایم ایف کے اسٹاف سطح کے معاہدے کی رپورٹ کے مطابق ”برآمدی آمدنی کی واپسی کی مدت کو مختصر کرنا، کیونکہ بیرونی حالات ابھی بھی نازک ہیں“، اور افراط زر میں کمی جو 3 سے 4 فیصد کم دکھائی گئی۔ تاہم، نجی شعبہ قرض حاصل کرنے میں ناکام رہا (جو کہ 1 جولائی سے 11 اکتوبر تک منفی 240 ارب روپے رہا) اور اس کے نتیجے میں پیداوار بڑھانے یا اجرتوں میں اضافے میں ناکامی رہی۔ اس کے نتیجے میں، اس سال صارفین کی آمدنی میں مزید کمی آئی اور عوام میں کسی قسم کا خوشی کا احساس پیدا نہ ہو سکا۔
دوسری بات یہ کہ وزیر خزانہ کا پیغام اس تاثر سے ہم آہنگ تھا کہ اصلاحات، جو دو دہائیوں سے پہلے تجویز کی گئی تھیں، انتظامی ناکامیوں کی وجہ سے نافذ نہیں ہو سکیں۔ اگرچہ نظم و ضبط کئی اہم شعبوں کی کارکردگی میں ایک ضروری جزو ہے، لیکن یہ تعلیم اور متعلقہ تجربے کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے، چاہے وہ مقامی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر( کیونکہ ان دونوں کے بغیر کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے، جیسا کہ ملک نے اپنے تجربات سے سیکھا ہے)
مختصر یہ کہ مسئلہ صرف اصلاحات کے نفاذ میں ناکامی کا نہیں ہے بلکہ اصلاحات کے ڈیزائن میں خامیوں کا بھی ہے جن پر آئی ایم ایف کے جاری چوبیسویں پروگرام میں بھی غور نہیں کیا گیا۔
اہم سرکاری عہدوں پر نجی شعبے کا تجربہ ہمیشہ فائدہ مند نہیں ہوتا ہے کیونکہ ان کے متعلقہ شعبوں میں بڑے فرق ہوتے ہیں، اور اسی وجہ سے ان کی ردعمل کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ نجی اداروں کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر ان کا ردعمل ملٹی لیٹرل اور بائی لیٹرل ڈونرز کے مقابلے میں مختلف ہوتا ہے۔
محمد اورنگزیب نے آگے کہا کہ اپنے اصلاحات کے نقطہ نظر کے برعکس، وہ ملک کو درپیش سنگین ماحولیاتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے عوامی حمایت کی درخواست کریں گے۔
اگرچہ پاکستان کا ماحولیاتی چیلنج میں زیادہ تر حصہ بنیادی طور پر ہمسایہ ممالک سے آتا ہے نہ کہ اندرونی عوامل سے، پھر بھی اس چیلنج سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔
تاہم پریس بریفنگ کا سیاق و سباق پاکستان میں پانچ روزہ آئی ایم ایف مشن کے دورے کے اختتام سے متعلق تھا، جس کا پریس ریلیز پچھلے جمعہ کو اس کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا، جس میں ”محتاط مالیاتی اور مانیٹری پالیسیوں کو جاری رکھنے کی ضرورت“ پر زور دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ محمد اورنگزیب کا یہ بیان آیا کہ انتظامی اقدامات کیے جائیں گے تاکہ اصلاحات، یعنی تمام طے شدہ شرائط، پر عمل درآمد کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کا یہ بیان بھی ہے کہ ”پاکستان کو معیشت میں ریاستی مداخلت کو کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں“، جو کہ موجودہ اخراجات میں 21 فیصد اضافے کے بجٹ کے خلاف ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments