بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) نے توقع ظاہر کی ہے کہ کے ایس ای-100 انڈیکس، جو عمومی طور پر اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کے معیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، دسمبر 2025 تک 120,010 پوائنٹس تک پہنچ جائے گا۔ یہ پیش گوئی تقریباً 27 فیصد منافع کی نشاندہی کرتی ہے جو باقی 13.5 ماہ کی مدت کے دوران حاصل ہوسکتا ہے۔

کے ایس ای-100، جو اکتوبر 2023 سے نومبر 2024 کے دوران دنیا کی سب سے بہترین کارکردگی دکھانے والی مارکیٹ رہی ہے، نے پچھلے چند ہفتوں میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا اور جمعہ کے سیشن میں 0.61 فیصد کا منافع حاصل کیا۔ کے ایس ای-100 انڈیکس نے 15 نومبر 2024 کو 94,763.64 کی ریکارڈ بلند سطح پر اختتام کیا، جبکہ اس دوران یہ 95 ہزار کی بلند سطح سے بھی تجاوز کرگیا جس کے بعد سال کے آخر تک 100,000 تک پہنچنے کی کالز زور پکڑ رہی ہیں۔

ایک طویل عرصے کے بعد بینچ مارک انڈیکس نے سونے اور دیگر اثاثوں کے شعبوں میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ اس نے رواں کیلنڈر سال کے دوران مستحکم شرح تبادلہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک اور بیل آؤٹ پیکج کے ساتھ 52 فیصد منافع کی پیش کش کی ہے جس سے سرمایہ کاروں کو آزادانہ طور پر اسٹاک اور ان کی آمدنی پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملا ہے۔

اے ایچ ایل نے اپنی 117 صفحات پر مشتمل ’پاکستان انویسٹمنٹ اسٹریٹجی 2025‘ رپورٹ کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’مارکیٹ کی ممکنہ ریٹنگ کیلئے حالات مکمل طور پر سازگار ہیں، جو سود کی شرح میں کمی، مستحکم پاکستانی روپے اور میکرو اکنامک بنیادی اصولوں میں بہتری کے امتزاج سے متحرک ہو سکتی ہے۔

اس سال کی تھیم ”نئی بلندیوں کو چھونا“ کے ایس ای-100 کے سال بھر میں نئی بلندیوں کو چھونے کے بعد آیا ہے جس کے بارے میں اے ایچ ایل کا ماننا ہے کہ 2025 کے آغاز تک یہ رفتار جاری رہے گی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ہمارا تخمینہ ہدف قیمت کی نقشہ سازی اور پی/ای تناسب کے طریقوں پر مبنی ہے‘، جس میں کے ایس ای-100 اس وقت 5.3 کی قیمت سے آمدنی (پی ای) ملٹی پل پر ٹریڈ کررہا ہے جو گزشتہ 10 سال کی اوسط 8.3 گنا کے مقابلے میں 35.8 فیصد کم ہے۔

“سی وائی 24 ٹی ڈی میں واپسی کے باوجود، کے ایس ای -100 کی مختلف ویلیو ایشن نقطہ نظر سے قدر کم ہے۔

 ۔
۔

اس نے رواں مالی سال کیلئے اپنا مثبت نقطہ نظر برقرار رکھا، جس کی وجوہات میں قابل انتظام کرنٹ اکاؤنٹ، افراط زر کی رفتار میں کمی، زری پالیسی میں نرمی اور ایکسچینج ریٹ میں استحکام شامل ہیں۔

تاہم، اس نے سال 2025 میں کارپوریٹ آمدن میں 4.2 فیصد اضافے کا بھی تخمینہ لگایا ہے، جو وبا کے سال (2020) کے بعد سے سب سے سست رفتار ہے کیونکہ ہائی بیس اثر ہیوی ویٹ بینکنگ سیکٹر پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کا اثر پاکستان کی مشکلات کی شکار ٹیکسٹائل انڈسٹری پر بھی پڑتا ہے۔ کے ایس ای-100 کی آمدن جو آخری بار کم ہوئی تھی، وہ 2020 میں 3.9 فیصد تھی، اور اس سے پہلے 2019 میں یہ 5.5 فیصد رہی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ملکی لیکوڈٹی اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کے ساتھ انضمام اور حصول میں تیزی سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی برقرار رہے گی۔

تاہم آئی ایم ایف پروگرام کے دوران میکرو اکنامک عدم توازن، اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور سیاسی عدم استحکام کو اسٹاک مارکیٹ کی تیزی کے لیے خطرات قرار دیا گیا۔

مقامی لیکوڈٹی پر اپنے نوٹ میں اے ایچ ایل نے کہا کہ کے ایس ای کی ملکیت میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے اور اب فری فلوٹ بنیادی طور پر (76.4 فیصد) ہائی نیٹ ورتھ افراد (ایچ این ڈبلیو آئیز)، کمپنیوں، بروکرز اور دیگر اداروں کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے میوچل فنڈ انڈسٹری کے زیر انتظام اثاثے مالی سال 2020 میں 742 ارب روپے سے بڑھ کر ستمبر 2024 تک تقریبا 3.0 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے، جن میں سے صرف 8 فیصد یا 232 ارب روپے ایکویٹی اے یو ایم ہیں۔ حال ہی میں شرح سود میں کمی اور بہتر میکروز کے ساتھ ہم نے مالی سال 2024 ٹی ڈی میں میوچل فنڈ انڈسٹری کی جانب سے 34 ارب روپے کی خالص سرمایہ کاری دیکھی ہے جو 7 سال کے بعد سب سے زیادہ خالص سرمایہ کاری ہے۔

ہمارے تخمینے سے پتہ چلتا ہے کہ فکسڈ انکم سے ایکویٹیز میں ہر ایک فیصد کی ری الاٹمنٹ کے ساتھ، میوچل فنڈز اور انشورنس کمپنیاں ممکنہ طور پر مارکیٹ میں بالترتیب 29.8 ارب روپے اور 15.0 ارب روپے لگا سکتی ہیں۔

بروکریج ہاؤس جو اسٹاک کے کاروبار میں ملوث ہے نے کہا کہ سال 2025 میں ایکویٹیز ہی ترجیحی اثاثہ کلاس ہوں گی۔

ہمیں یقین ہے کہ سال 2025 میں کے ایس ای -100 انڈیکس کی دوبارہ درجہ بندی کا ایک اہم محرک پرائمری اثاثہ کلاس کے طور پر ایکویٹیز کے لئے بڑھتی ہوئی ترجیح ہوگی۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ اگلے سال فکسڈ انکم ریٹرن سنگل ڈیجٹ (بعد از ٹیکس) میں رہیں گے، جو اس کی کشش کو نسبتاً کم کر دے گا۔“

اس نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ کو بطور سرمایہ کاری کے راستے کے طور پر نقطہ نظر ماند ہے، کیونکہ بڑھتے ہوئے اخراجات اور ضابطوں کی رکاوٹیں اس کی کشش کو کم کر رہی ہیں۔

ڈالرائزیشن کا مقابلہ کرنے کے لئے سخت اقدامات اور ادائیگیوں کے توازن کے مستحکم نقطہ نظر سے توقع ہے کہ غیر ملکی کرنسی میں سرمایہ کاری محدود ہوجائے گی ، جس سے ڈالر پر مبنی اثاثوں میں سرمایہ کاری میں مزید کمی آئے گی۔

مزید برآں، پہلے سرمایہ کاری کے لیے پرکشش سمجھا جانے والا آٹو سیکٹر بھی کم قوت خرید اور کاروں کی اونچی قیمتوں کی وجہ سے اپنی کشش کھو چکا ہے اور مستقبل قریب میں اس کی بحالی کا امکان نہیں ہے۔

اے ایچ ایل نے کہا کہ ان عوامل کا مجموعہ ایکویٹیز کے لیے ایک بہترین ماحول فراہم کرتا ہے، جو انہیں 2025 میں سب سے زیادہ ترجیحی سرمایہ کاری کا ذریعہ بنا دے گا۔

Comments

200 حروف