اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو بینکوں کی آمدن پر ٹیکس جمع کرنے سے روک دیا۔ بنچ نے حکومت کو روکنے کے علاوہ سیکریٹری خزانہ اور دیگر مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں کے اندر رپورٹ اور پیرا وائز تبصرے داخل کرنے کی ہدایت کی۔

بنچ نے کہا کہ سماعت کی اگلی تاریخ تک درخواست گزاروں کے خلاف آرڈیننس کے ساتویں شیڈول کے رول 6 سی (6 اے) کو اپنی آمدنی پر لاگو کرکے محکمہ ٹیکس کی جانب سے لگائے گئے کسی بھی حساب کی بنیاد پر کوئی زبردستی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

جسٹس بابر ستار کی سربراہی میں سنگل بنچ نے ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ کے ذریعے مختلف بینکوں کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ یہ نوٹس اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کو بھی جاری کیا گیا ۔

درخواست گزاروں نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 (انکم ٹیکس آرڈیننس) کے ساتویں شیڈول کے رول 6 سی (6 اے) کو مسترد کردیا ہے۔

سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ محکمہ ٹیکس درخواست گزاروں کی جانب سے وفاقی حکومت کی سیکیورٹیز میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی آمدن پر ٹیکس لگانے کی کوشش کر رہا ہے جس کیلئے مجموعی ایڈوانسز اور ڈپازٹ تناسب کی بنیاد پر ٹیکس کی شرح مقرر کی گئی ہے۔

انہوں نے دلیل دی کہ ایسا کرتے ہوئے مدعا علیہان درخواست گزاروں کے بینکنگ کاروبار کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، جو منی بل کے دائرہ کار سے باہر ہے اور اس کے نتیجے میں آئین کے آرٹیکل 73 کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طریقے سے چارج عائد کیا گیا ہے وہ غیر فعال ہے کیونکہ وفاقی حکومت کی سیکیورٹیز میں کی جانے والی سرمایہ کاری مالی سال کے دوران پختہ نہیں ہوئی اور اس طرح کی سرمایہ کاری کے سلسلے میں وصول کیے جانے والے ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا تھا اور اس کا اطلاق سابقہ طور پر نہیں کیا جا سکتا تھا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف