گزشتہ ماہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کی گئی اسٹاف لیول معاہدے کی رپورٹ میں جائزوں کا شیڈول دیا گیا تھا جس کے مطابق 37 ماہ کیلئے 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کی منظوری کی تاریخ 25 ستمبر مقرر کی گئی تھی جس کے تحت 76 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط جاری کی گئی۔ پہلا سہ ماہی جائزہ 15 مارچ 2025 کو طے کیا گیا ہے اور اگر یہ کامیاب رہتا ہے تو مزید 76 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کی جائیگی۔
لہٰذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ملک کے اندر اس بارے میں شدید قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ آئی ایم ایف کے مشن کی پاکستان آمد کے لیے طے شدہ وقت پر طے شدہ شرائط/بینچ مارکس میں سے کون سی شرائط پوری نہیں ہوئیں جن کا مقصد یا تو نئی شرائط طے کرنا اور/یا متفقہ ہنگامی اقدامات پر عمل درآمد کرنا ہے۔
بزنس ریکارڈر میں شائع ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشن نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے ملاقات کی ہے جس میں رواں سال دسمبر کے آخر تک 230 ارب روپے کے شارٹ فال کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
تاجروں کی منظم مزاحمت کی وجہ سے تاجر دوست اسکیم ابھی تک شروع نہیں کی گئی ہے (جس کی توقع ماضی کی ترجیحات کی بنیاد پر کی جانی چاہیے تھی)، اطلاعات کے مطابق ایف بی آر حکام نے تاجروں کی تمام تجاویز کو قبول کرتے ہوئے مذاکرات کامیابی سے مکمل کرلیے ہیں۔ اس کے باوجود ایف بی آر کے کچھ سینئر افسران کا دعویٰ ہے کہ اس مد میں مختص بجٹ صرف 50 ارب روپے تھا، جبکہ مارچ 2024 میں اس پروگرام کے آغاز کے وقت — جو میڈیا میں بڑے جوش و خروش سے شروع کیا گیا لیکن کبھی عملی طور پر نافذ نہیں ہوا — متوقع آمدنی تقریباً 400 سے 500 ارب روپے تھی۔
اس لیے، اگرچہ اس اسکیم سے ہدف کے مطابق آمدنی میں کتنی کمی ہوئی ہے یہ واضح نہیں کیونکہ پہلے کے تخمینوں اور آج کے تخمینوں میں بڑا فرق ہے، تاہم 230 ارب روپے کی مجموعی آمدنی کی کمی اتنی اہم ہے کہ یہ مشن کی پاکستان آمد کا باعث بنی ہے۔
اس کمی کو دور کرنے کا ایک واضح طریقہ یہ بھی ہے کہ حکومت اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 سے 25 فیصد اضافے کو موخر کرے جو کل لیبر فورس کا 7 فیصد ہیں اور جن کی تنخواہیں ٹیکس دہندگان کے خرچ پر ادا کی جاتی ہیں جبکہ ملک کی بقیہ 93 فیصد لیبر فورس نہ صرف گزشتہ چار سے پانچ سالوں سے تنخواہوں میں کم سے کم اضافے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ لیکن ان سالوں کے دوران افراط زر میں بڑے پیمانے پر اضافے سے بھی نبردآزما ہیں۔
حکومت نے بدقسمتی سے گزشتہ حکومتوں کی طرح اس سال کے لیے مختص ترقیاتی بجٹ میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ ترقیاتی اخراجات جی ڈی پی کی ترقی کے لیے ایک اہم محرک ہیں۔ یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب نجی شعبے کی پیداوار سست روی کا شکار ہے، اس کے باوجود اسٹیٹ بینک کے سروے اس کے برعکس دعویٰ کرتے ہیں۔
بجٹ میں متعین 3.5 فیصد ترقی کی شرح کو ڈونر ایجنسیوں نے پہلے ہی کم کر کے 3 فیصد کر دیا ہے،جبکہ مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے 4 نومبر کے فیصلے میں اسے 2.5 سے 3.5 فیصد کے درمیان کم کردیا ہے ۔ مقامی ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ 3.5 فیصد کو قابل حصول حد کے طور پر پیش کرنا شاید دباؤ، خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ، کا نتیجہ ہوسکتا ہے، نہ کہ اس پختہ یقین پر کہ یہ ہدف حقیقتاً حاصل کیا جا سکے گا۔
چاہے جو بھی ہو، کم ترقی کا مطلب کم ٹیکس وصولیوں کا ہے، اور اس تناظر میں یہ قابلِ ذکر ہے کہ حالیہ 15 فیصد کی کمی کے باوجود نجی شعبے کیلئے ڈسکاؤنٹ ریٹ اب بھی بہت زیادہ ہے۔ جیسا کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں مختصر طور پر کہا گیا ہے،”3 فریقوں یعنی حکومتی خزانہ، کمرشل بینک اور مرکزی بینک کے بیلنس شیٹس ایک دوسرے سے گہرے جڑے ہوئے ہیں ۔“
اس پیچیدہ سہ فریقی تعلقات کا مطلب یہ ہے کہ ایک شعبے (مثلاً، مالیاتی پالیسی، مانیٹری پالیسی اور بینکاری شعبہ) میں ہونے والی تبدیلیاں یا اقدامات معیشت پر وسیع اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بڑھتی ہوئی انتظامی قیمتیں، خاص طور پر بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں، مزید پیداواری لاگت بڑھارہی ہیں اور نجی شعبے کی پیداوار کیلئے رکاوٹ بن رہی ہیں۔
بزنس ریکارڈر کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حقیقت پسندی پر مبنی ٹیکس ہدف پر متفق ہونے کی ضرورت ہے، جو کہ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ آئی ایم ایف اب طے شدہ ہدف پورا نہ ہونے کی صورت میں ہنگامی ٹیکس اقدامات تجویز کرتا ہے، لیکن یہ بھی کہ سیاسی طور پرسخت مشکل حالات (انتظامی قیمتوں اور بالواسطہ ٹیکسوں کا پھیلاؤ جن کا اثر غریبوں پر امیروں سے زیادہ ہے) کو ختم کرنے کے لیے حکومت کی گرفت میں کسی بھی اضافے کے لیے تمام اشرافیہ کی جانب سے کم از کم موجودہ مالی سال اخراجات میں رضاکارانہ قربانی کی ضرورت ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments