گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں 70 فیصد سے زائد زمین اونچے پہاڑوں اور گلیشیئرز سے ڈھکی ہوئی ہے، جس کا صرف ایک فیصد زراعت کے لیے دستیاب ہے۔ زرعی سرگرمیوں کے لئے اس کم سے کم رقبے کے باوجود ، اس خطے میں پھلوں کی پیداوار کا نمایاں امکان موجود ہے۔

گلگتت بلتستان کی انتہائی اونچائی، سرد آب و ہوا اور زرخیز مٹی اسے خوبانی، چیری، اخروٹ اور سیب کی کاشت کے لئے مثالی بناتی ہے۔ ان پھلوں کی سالانہ پیداوار 61,188 میٹرک ٹن، خوبانی، 4,500 میٹرک ٹن چیری، 4,177 میٹرک ٹن اخروٹ اور 6,606 میٹرک ٹن سیب، ہے۔ یہ پھل اپنے منفرد ذائقے، خوشبو، اعلی ذائقے اور رس دار ساخت کے لئے مشہور ہیں.

گلگت بلتستان میں سیب کی چودہ اقسام کاشت کی جاتی ہیں ، جن میں ”ساسپولو سیب“ سب سے نمایاں ہیں۔ اگرچہ ساسپولو سیب کی مختلف اقسام ہیں لیکن سب سے مشہور قسم خاص طور پر کھرمنگ ضلع میں واقع پری کے چھوٹے سے گاؤں میں اگائی جاتی ہے۔ سیب کی تین اضافی اقسام پاری، سمرقند، نسخشو اور وردگاف میں اگائی جاتی ہیں۔

تاہم ساسپولو قسم اپنے بہترین ذائقے اور خوشبو کی وجہ سے نمایاں ہے۔ پاری میں، تقریبا 90 فیصد گھرانے براہ راست ساسپولو سیب کی کھیتی سے جڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اسے ”ساسپولو گاؤں“ کا لقب دیا جاتا ہے۔ یہ سیب نہ صرف اپنی غیر معمولی رسیلی ساخت اور لذیذ ذائقے کی وجہ سے مشہور ہیں بلکہ اپنی منفرد خوشبو کی وجہ سے بھی مشہور ہیں جو ہوا کو بھی اپنی منفرد خوشبو سے بھر دیتے ہیں۔

ساسوپولو سیبوں کی منفرد خوشبو ان کی اصل خصوصیت اور شناخت ہے جس سے انہیں مارکیٹ کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ مقامی معیشت کے ایک اہم کردار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان سیبوں کو خشک بھی کیا جاتا ہے اور اس پیسٹ کو مقامی لوگوں کے ذریعہ طبی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ایک قیمتی نقد فصل کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔

ساسپولو سیب کی مارکیٹ کو مزید وسعت دینے کے لئے گلگت بلتستان کی حکومت محکمہ زراعت اور این جی اوز کے تعاون سے ضلعی انتظامیہ کے زیر اہتمام مختلف فروٹ فیسٹیولز میں لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کرتی ہے۔ ضلع انتظامیہ ہر سال اکتوبر کے وسط میں پاری گاؤں میں روایتی طور پر ساسپولو فیسٹیول کا انعقاد کرتی ہے۔ چار سالانہ فیسٹیول پہلے ہی منعقد کیے جا چکے ہیں۔

اس سال ایک نیا موڑ آیا جب پانچواں ساسپولو فیسٹیول کھرمنگ ضلع کے مشہور سیاحتی مقام منتھوکھا آبشار میں منعقد ہوا۔ اگرچہ یہ اقدام مارکیٹ کو متنوع بنانے کے لئے فائدہ مند ہے ، لیکن مقامی کسانوں نے 2024 کے تہوار کے لئے منصوبہ بندی کے عمل سے باہر ہونے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس طرح کے ردعمل کاشتکاروں کے اعتماد کو ختم کرسکتے ہیں اور اس قیمتی پروڈکٹ سے متعلق مارکیٹ کے امکانات کو متاثر کرسکتے ہیں۔ لہذا اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ساسپولو کے حقیقی کاشتکاروں کی مشاورت اور شمولیت کے ساتھ تقریبات کا انعقاد کیا جائے۔

اس سال پاری گاؤں کی برادری نے آزادانہ طور پر سسپولو فیسٹیول کا انعقاد کیا اور اس کی مالی اعانت خود کی۔ پاری برج پر دو روزہ تقریب، جہاں زیادہ تر شرکاء مقامی ہونے کے باوجود، کسان ہزاروں کلو گرام ساسپولو سیب ایک کروڑ روپے سے زیادہ میں فروخت کرنے میں کامیاب رہے۔

اگرچہ ریکارڈ فروخت ساسپولو سیب کی مضبوط مارکیٹ کی مانگ کو اجاگر کرتی ہے لیکن یہ معمولی فائدہ ہے۔ مختلف خطوں کے درمیان قیمتوں میں نمایاں اتار چڑھاؤ ان کی اعلی طلب اور مارکیٹ کی قیمت کی عکاسی کرتا ہے۔ پاری گاؤں میں قیمتیں 350 سے 400 روپے فی کلو، سکردو شہر میں 500 سے 600 روپے فی کلو اور اسلام آباد میں 800 سے 1000 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہیں۔ یہ سسپولو سیب کی اقتصادی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

گلگت بلتستان میں سیب کی کل پیداوار تقریبا 24,000 ٹن ہے۔ سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے تقریبا 25 فیصد سیب ضائع ہوجاتے ہیں۔ بقیہ سیبوں میں سے 50 فیصد مقامی طور پر کھائے جاتے ہیں جبکہ باقی 50 فیصد گلگت بلتستان سے باہر فروخت کیے جاتے ہیں۔

درست اور موجودہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن فرض کریں کہ ساسپولو سیب گلگت بلتستان میں سیبوں کی کل پیداوار کا تقریبا 10 فیصد ہے جس کی اوسط قیمت 650 روپے فی کلو گرام ہے صرف یہ قسم مقامی برادری کے لئے تقریبا 1.6 بلین روپے کی تخمینہ معاشی قدر پیدا کرتی ہے۔

پاکستان کے بڑے شہری شہروں میں ساسپولو سیب کی بلند قیمتوں کے باوجود ان سیبوں کے لئے مناسب مارکیٹنگ چینلز یا مارکیٹیں تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں، ساسپولو سیب بنیادی طور پر آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے دستیاب ہیں جس کے لئے صارفین کو آن لائن آرڈر دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ادائیگی کے بعد، سیب خریداروں کو فراہم کیے جاتے ہیں، حقیقت میں، مارکیٹنگ چینلز کی عدم موجودگی اور آن لائن آرڈرز کی فراہمی سے وابستہ چیلنجز کئی رکاوٹوں کی وجہ سے ہیں۔

شاہراہ قراقرم اور شاہراہ بلتستان گلگت بلتستان کو پاکستان کے باقی حصوں سے جوڑتی ہیں لیکن دونوں راستے لینڈ سلائیڈنگ اور زلزلوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔

مزید برآں، فضائی ٹریفک واضح موسمی حالات پر بہت زیادہ منحصر ہے۔ اکتوبر اور نومبر کے دوران بہت سی پروازیں اکثر ناسازگار موسم کی وجہ سے معطل کردی جاتی ہیں۔ لہٰذا مقامی کاشتکاروں کے لیے اہم معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے ایک موثر سپلائی چین کا قیام ضروری ہے۔

پاری گاؤں کے کسانوں کو سڑک کے خراب بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے اونچے مقامات پر اگائے گئے ساسپولو سیبوں کی منتقلی انتہائی دشوار گزار ہوتی ہے۔

نتیجتا پھل کی مختصر طبعی عمر کی وجہ سے فصل کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔ کھرمنگ ضلع میں کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کی عدم موجودگی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے جس کی وجہ سے اس کا ضیاع اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ مزید برآں، کسان روایتی کاشتکاری اور مارکیٹنگ کے طریقوں پر انحصار کرتے رہتے ہیں جس میں جدید زرعی اور مارکیٹنگ تکنیکوں میں مناسب تربیت کا فقدان ہے۔

آئی ایف اے ڈی اور اے کے آر ایس پی جیسی مختلف بین الاقوامی اور قومی این جی اوز کھرمنگ ضلع میں زرعی سرگرمیوں میں سرگرم عمل ہیں لیکن ان کی کوششیں بڑی حد تک پانی کے چینلوں کی تعمیر اور خوبانی خشک کرنے کیلئے درکار لکڑی کے سانچوں تک محدود رہی ہیں۔ مارکیٹنگ، اور پیکیجنگ کی مہارت کے بارے میں تکنیکی علم کے ذریعے انسانی صلاحیت کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے ان سرگرمیوں کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

گلگت بلتستان حکومت تہواروں کے لئے خاطر خواہ فنڈز مختص کرتی ہے لیکن وسائل کی تقسیم کو زیادہ اسٹریٹجک کیے جانے کی ضرورت ہے۔ زرعی ترقیاتی فنڈز کا بیشتر حصہ تہواروں میں استعمال کرنے کے بجائے مقامی کسانوں کو درپیش حقیقی چیلنجز پر ترجیح دی جانی چاہئے۔ کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کے قیام کے ساتھ ساتھ پاری گاؤں کے کسانوں کو جدید تکنیک اور بہتر مارکیٹنگ حکمت عملی سے لیس کرکے ساسپولو سیب کی پیداوار اور صلاحیت میں نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

Comments

200 حروف