پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے حکومت سے مزید چینی برآمد کرنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے کرشنگ سیزن کے آغاز پر ملک میں 10 لاکھ 80 ہزار ٹن سے زائد اضافی چینی موجود ہے۔
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کی زیر صدارت شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) کے اجلاس کے دوران پی ایس ایم اے نے باضابطہ طور پر اس سلسلے میں اجازت طلب کی۔
حکومت نے پی ایس ایم اے کی جانب سے اضافی چینی برآمد کرنے کی نئی درخواست موصول ہونے کے بعد شوگر انڈسٹری کو مشورہ دیا ہے کہ حکومت اس طرح کی کسی بھی درخواست پر اس وقت تک غور نہیں کرے گی جب تک صنعت پہلے سے مختص 790،000 ٹن کا برآمدی کوٹہ برآمد نہیں کرتی۔
پی ایس ایم اے حکام نے اجلاس کو بتایا کہ چین کی سالانہ درآمدی طلب 60 لاکھ ٹن ہے لہٰذا حکومت سے درخواست ہے کہ چین کو چینی برآمد کرنے کے لیے جی ٹو جی یا جی ٹو بی سہولت فراہم کی جائے۔
بورڈ اجلاس میں پی ایس ایم اے سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بھی شرکت کی جس میں چینی کے اسٹاک کی دستیابی، گنے کے نئے کرشنگ سیزن کے آغاز، موجودہ مارکیٹ قیمتوں، گنے کے نرخوں، عالمی مارکیٹ میں چینی کی موجودہ قیمتوں اور صنعت کی پیداواری لاگت پر تبادلہ خیال اور جائزہ لیا گیا۔
وفاقی وزیر نے پی ایس ایم اے کو ہدایت کی کہ 8 اکتوبر 2024 ء کے فیصلے کے مطابق تین ماہ کے لئے مقرر کردہ مقررہ وقت میں چینی کی برآمد کی اجازت شدہ مقدار کو یقینی بنایا جائے اور مقامی اجناس کی قیمتیں مستحکم رہیں تاکہ صارفین کو ماضی کی طرح مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک سرکاری پریزنٹیشن کے مطابق، صنعت نے اب تک برآمدات کے لئے مختص 790,000 کوٹہ میں سے صرف 186,934 ٹن برآمد کیا ہے کیونکہ برآمدات کے لئے منظور شدہ کوٹہ 603,066 ٹن ابھی تک استعمال نہیں ہوا ہے۔
اجلاس کے دوران پی ایس ایم اے کے نمائندوں نے سرکاری حکام کو بتایا کہ رواں سال پاکستان کے پاس 17 لاکھ ٹن سے زائد اضافی چینی موجود ہے جسے برآمد کیا جانا چاہیے تھا۔
جبکہ حکومت نے جون 2024 میں پی ایس ایم اے کو ایک لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اگست میں مزید ایک لاکھ ٹن کی توسیع کی گئی اور تاجکستان کو حکومتی بنیادوں پر 40 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی اور 8 اکتوبر 2024 کو حکومت نے چینی کی صنعت کو 5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی۔
کین کمشنر شوگر آف ٹیک/کھپت رپورٹ کے مطابق گزشتہ 11 ماہ کے دوران مقامی سطح پر مجموعی طور پر 6.2 ملین ٹن چینی استعمال کی گئی اور اب تک برآمد کنندگان مجموعی طور پر 186,934 ملین ٹن چینی برآمد کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اوسطا 545,000 ٹن چینی استعمال کی گئی جس میں مقامی کھپت اور برآمد شدہ مقدار شامل تھی۔
کرشنگ سیزن 24-2023 کے دوران پاکستان نے مجموعی طور پر 6.843 ملین ٹن چینی پیدا کی ہے جس میں سے پنجاب میں 4.37 ملین ٹن، سندھ میں 2.022 ملین ٹن اور خیبر پختونخوا (کے پی کے) میں 447,000 ٹن چینی پیدا کی گئی۔
سیزن کے دوران ملک میں مجموعی طور پر 8 لاکھ 23 ہزار ملین ٹن چینی کا ذخیرہ موجود تھا جس میں سے 5 لاکھ 17 ہزار ٹن پنجاب کی ملوں کے پاس، 1 لاکھ 91 ہزار ٹن سندھ کی ملوں کے پاس اور 1 لاکھ 15 ہزار ٹن کے پی کے ملز کے پاس تھا۔
اجلاس میں شوگر ملز کو 21 نومبر 2024 سے گنے کی کرشنگ کا نیا سیزن شروع کرنے کی ہدایت کی گئی، ہدایات پر عمل نہ کرنے والوں کو چینی برآمد کی اجازت واپس لینے سمیت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وفاقی وزیر نے پی ایس ایم اے کے ممبران کو ہدایت کی کہ گنے کی کرشنگ کے نئے سیزن کے آغاز سے قبل کاشتکاروں کے تمام بقایا جات کی ادائیگی کی جائے۔
رواں سال جون میں پی ایس ایم اے نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ پہلے مرحلے میں 10 لاکھ ٹن تک ریفائنڈ چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے جس سے ملک کو 650 سے 700 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا اور باقی 0.6 ملین ٹن چینی دو مرحلوں میں برآمد کی جائے گی۔
پی ایس ایم اے حکام کے مطابق گزشتہ سال گنے کی قیمت 350 روپے فی 40 کلو مقرر کی گئی تھی جو 24-2023 میں 450 روپے فی 40 کلو تک پہنچ گئی اور اس وقت چینی کی پیداواری لاگت 170 روپے فی کلو ہے جبکہ ریٹیل مارکیٹ میں ریفائنڈ چینی 140 روپے فی کلو کے درمیان دستیاب ہے جو دنیا میں سب سے کم قیمت ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت 6400 روپے فی 50 کلو گرام تھیلے تک پہنچ گئی ہے جو دو سال کی کم ترین سطح ہے۔
پی ایس ایم اے حکام کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر چینی کی پیداواری قیمت 503 ڈالر فی ٹن کے لگ بھگ ہے جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں 6 نومبر 2024 تک یہ 562 ڈالر فی ٹن ہے لہٰذا برآمد کی اجازت سے صنعت اور ملک دونوں کو فائدہ ہوگا۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں چینی کا صنعتی استعمال 85 فیصد اور باقی 15 فیصد گھریلو استعمال ہے۔ اس کے علاوہ چینی پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کیا گیا تھا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments