نیشنل ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مبینہ طور پر صوبوں پر زور دیا ہے کہ وہ صوبائی ایکسپورٹ سیس کو ختم کریں، جس سے پاکستانی برآمدات کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس طرح ان کی مسابقت میں کمی واقع ہورہی ہے۔
یہ مطالبات ان سرکاری اداروں اور برآمد کنندگان کی جانب سے جاری ہیں جو برآمدات میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیداواری لاگت میں کمی ضروری ہے تاکہ برآمد کنندگان عالمی منڈی میں مسابقت برقرار رکھ سکیں، ورنہ ان کی قیمتی زر مبادلہ کمانے کی صلاحیت میں بتدریج کمی کا خطرہ ہے۔ یہ مقصد، جو بلاشبہ فائدہ مند ہے، کئی انتہائی پیچیدہ رکاوٹوں کا سامنا کر رہا ہے۔
اس بات کے قابل ذکر شواہد موجود ہیں کہ بجلی کے شعبے کی مایوس کن کارکردگی، جس کی وجہ سے موجودہ ٹیرف ہمارے علاقائی حریفوں کے اوسط سے کہیں زیادہ ہیں، مکمل لاگت کی بحالی کے مقصد سے مزید بڑھنے کا امکان ہے،پیداواری شعبوں کے ساتھ منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
کئی دہائیوں سے حکومت کی جانب سے اس شعبے کے حوالے سے مسلسل بدانتظامی اور سنگین ناقص فیصلے آج بھی جاری ہیں (درمیانی سے اعلی آمدنی والے افراد کے لیے سولر پینلز کی حوصلہ افزائی جس سے قومی گرڈ سے طلب میں 20 فیصد کمی آئی ہے جس سے آزاد پاور پروڈیوسرز کو کیپیسٹی پیمنٹ میں اضافہ ہوا ہے)۔
برآمد کنندگان کا بھی کوئی قصور نہیں ہے کہ حکومت نے ریونیو کے ذریعہ کے طور پر پٹرولیم لیوی پر اتنا زیادہ انحصار کرنا شروع کردیا ہے (یہ قابل تقسیم پول کا حصہ نہیں ہے) جس کا بجٹ 1.28 ٹریلین روپے ہے ، جو سال کے لئے مختص ایف بی آر کی کل وصولیوں کا 10 فیصد اور بجٹ کے کل نان ٹیکس ریونیو کا 26.4 فیصد ہے۔ اس ٹیکس سے خام مال کی ترسیل کے ساتھ تیار برآمدی اشیاء کی بندرگاہ تک نقل و حمل کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
آخر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے وعدہ کیا ہے کہ وہ جاری توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت برآمد کنندگان کو رعایتی قرضے فراہم نہیں کرے گی۔ اور اگرچہ ڈسکاؤنٹ ریٹ کا تعین زری پالیسی کمیٹی کے ذریعہ کیا جاتا ہے لیکن اس وقت تمام مانیٹری پالیسی کے فیصلے آئی ایم ایف کی نگرانی میں کیے جاتے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ جاری پروگرام پر اسٹاف سطح کی رپورٹ میں درج ہے: “پہلی قومی ٹیرف پالیسی (2019-24) نے ٹیرف شیڈول کی پیچیدگی کو کم کیا اور کئی درآمدی خام مال کے لیے ڈیوٹی فری رسائی متعارف کرائی۔ چونکہ آئندہ مرحلے (2025-29) پر مشاورت جاری ہے، اس لیے ٹیرف شیڈول میں اصلاحات کا مقصد پیچیدگی کو مزید کم کرنا اور صنعتی ترقی کے فروغ یا غیر مسابقتی اور خود کفالت سے قاصر شعبوں کے تحفظ کے لیے ٹیرف کا استعمال نہ کرنا ہونا چاہیے،کیونکہ اس طرح کی پالیسیاں برآمدات کو کمزور کرتی ہیں ، عالمی ویلیو چین میں شرکت میں رکاوٹ ڈالتی ہیں ، اور کرایہ طلبی کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
تجارتی پالیسیاں جو مخصوص مقامی شعبوں کو فروغ دینے کے لیے بنائی گئی ہیں، بشمول برآمدی سبسڈیز اور مقامی مواد کی شرائط، کو بند کر دینا چاہیے کیونکہ ان سے وسائل کے غلط استعمال کا امکان ہے اور یہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی بھی کر سکتی ہیں۔ حکام کو تجارتی وزن کے حساب سے اوسط ٹیرف کو کم کرنے اور درآمد/برآمد دستاویزات کے عمل کو آسان بنانے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
اگرچہ برآمد کنندگان قانونی طور پر اس بات کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ ان کی پیداواری لاگت میں خاطر خواہ اضافہ، خاص طور پر حکومت کے انتظامی اقدامات (ٹیرف میں اضافہ) اور مالیاتی اور مانیٹری پالیسیوں سے متعلق اخراجات ان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ برآمد کنندگان ہماری معیشت کی اشرافیہ کی گرفت کا ایک اہم جزو تھے - یہ حقیقت اُس وقت واضح طور پر سامنے آئی جب اُس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اکتوبر 2022 کے پہلے ہفتے میں 110 ارب روپے کی ٹیرف سبسڈی کا اعلان کیا، جب کہ پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کے بعد 30 ملین سے زائد افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے تھے۔ ایک اور ناقابل فہم مثال یہ ہے کہ تقریباً تمام پاکستانی حکومتوں نے چینی برآمد کرنے والوں کو سبسڈیز فراہم کیں، جس کی وجہ ملک کی 70 سے زائد چینی ملوں پر سیاسی ایلیٹ کا قبضہ ہے۔
لہٰذا، عالمی منڈی میں برآمد کنندگان کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے مراعات کی طلب پوری نہیں کی جا سکے گی، کیونکہ آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر ایسی معاونت دینے کی مالی گنجائش موجود نہیں ہے اور اس کی منظوری متوقع بھی نہیں ہے۔ تاہم، حکومت کو چاہیے کہ برآمد کنندگان کو یہ رہنمائی فراہم کرے کہ وہ صرف اپنا اضافی مال برآمد کرنے پر انحصار نہ کریں بلکہ برآمدات کے مقصد کے ساتھ پیداوار کریں۔ دوسرے الفاظ میں، غیر روایتی اور زیادہ قدر والی اشیاء کی پیداوار کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments