چین طالبان کو اپنی وسیع تعمیراتی، توانائی اور صارفین کے شعبوں میں ڈیوٹی فری رسائی فراہم کرے گا۔ یہ بات بدھ کے روز افغانستان کیلئے چین کے نمائندے نے کہی۔ مالی مشکلات کا شکار اور سفارتی طور پر تنہائی میں مبتلا یہ طالبان حکومت اپنی مارکیٹوں کو ترقی دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

بیجنگ نے 2021 میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے ان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے لیکن تمام حکومتوں کی طرح اس نے بھی بنیاد پرست گروپ کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے جس کی بنیادی وجہ انسانی حقوق اور خواتین و لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی تشویش ہے۔

تاہم یہ غریب ملک بیجنگ کی سپلائی چین سیکورٹی کو بہتر بنانے کے لیے قیمتی معدنی وسائل فراہم کر سکتا ہے۔

افغانستان کے لیتھیئم، تانبے اور لوہے کے ذخائر کو دنیا کے سب سے بڑے خام مال کے خریدار کو فروخت کرنا طالبان کی کمزور معیشت کو سہارا دینے میں مددگار ثابت ہو گا جس کے بارے میں اقوام متحدہ کہتی ہے کہ یہ بنیادی طور پر ختم چکی ہے۔ یہ اقدامات افغانستان کے مرکزی بینک کے بیرون ملک میں ذخائر منجمد ہونے کے باعث ایک ضروری آمدنی کے ذرائع بھی فراہم کریں گے۔

افغانستان میں چین کے سفیر ژاؤ ژنگ نے جمعرات کی رات اپنے آفیشل ایکس اکاؤنٹ پر قائم مقام نائب وزیر اعظم عبدالکبیر سے ملاقات کی تصویر کے اوپر لکھا کہ چین افغانستان کو 100 فیصد ٹیرف لائنوں کے لئے صفر ٹیرف ٹریٹمنٹ کی پیش کش کرے گا۔

چین کے کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان نے گزشتہ سال چین کو 64 ملین ڈالر مالیت کا سامان برآمد کیا تھا، جس میں سے 90 فیصد کے قریب چلغوزے تھے لیکن طالبان حکومت نے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تلاش کرنے کے لئے پرعزم ہے جو اس کی معیشت کو متنوع بنانے اور معدنیات کی دولت سے منافع حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان نے گزشتہ سال چین کو کوئی اجناس برآمد نہیں کی تھی لیکن ژاؤ نے گزشتہ ستمبر میں اپنی تقرری کے بعد سے باقاعدگی سے کان کنی ، پٹرولیم ، تجارت اور علاقائی رابطوں کے ذمہ دار طالبان عہدیداروں سے ملاقات کی تصاویر پوسٹ کی ہیں۔

چین کی کئی کمپنیوں نے افغانستان میں کام کیا ہے، جن میں میٹالرجیکل کارپریشن آف چائنا لمیٹڈ شامل ہے، جس نے طالبان انتظامیہ کے ساتھ ایک ممکنہ طور پر بڑے کاپر مائن کے منصوبوں پر بات چیت کی ہے۔ یہ کمپنی اگست میں چینی سرکاری میڈیا میں افغانستان کی تعمیر نو کے حوالے سے چینی کمپنیوں کے ایک فیچر میں نمایاں کی گئی تھی۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے ستمبر میں 50 سے زائد افریقی رہنماؤں کے لیے بیجنگ میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں اعلان کیا تھا کہ یکم دسمبر سے ان کے ملک کی 19 ٹریلین ڈالر کی معیشت میں ’چین کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے کم ترقی یافتہ ممالک‘ سے داخل ہونے والی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی عائد نہیں کی جائے گی۔

اس کے بعد بدھ کے روز نائب وزیر تجارت تانگ وین ہونگ نے بیجنگ میں چین کی سالانہ فلیگ شپ امپورٹ ایکسپو کی تیاریوں کے بارے میں ایک پریس کانفرنس میں اس پالیسی کا اعادہ کیا۔

بیجنگ میں افغانستان کے سفارت خانے نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

گزشتہ اکتوبر میں افغانستان کے قائم مقام وزیر تجارت نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ طالبان شی جن پنگ کے فلیگ شپ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ انفراسٹرکچر منصوبے میں باضابطہ طور پر شامل ہونا چاہتے ہیں۔

کابل نے چین سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حصہ بننے کی اجازت دے جو چین کے وسائل سے مالا مال سنکیانگ خطے کو پاکستان کے بحیرہ عرب کی بندرگاہ گوادر سے جوڑتا ہے۔

Comments

200 حروف