سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کثرت رائے سے منظور
- وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل ایوان بالا میں پیش کیا جسے 4 کے مقابلے میں 65 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا
اعلیٰ عدلیہ کیلئے متنازع آئینی پیکج کے بارے میں راز اتوار کو اس وقت کھل کر سامنے آیا جب سینیٹ نے ہفتہ وار تعطیل پر منعقد ہونے والے غیر رسمی اجلاس میں دونوں ایوانوں سے 26 ویں آئینی ترمیم کو جلد بازی میں منظور کر لیا جس میں ارکان کی اکثریت نے تمام 22 شقوں کے حق میں ووٹ دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں متنازع قانون سازی کی منظوری کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اسے سینیٹ میں پیش کیا جہاں اسے دو تہائی اکثریت یعنی 4 کے مقابلے میں 65 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے علاوہ تمام جماعتوں نے بل کی حمایت کی اور اس کے حق میں ووٹ دیا۔
کل 61 سینیٹرز نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چار سینیٹرز نے اس کی مخالفت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 19، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-ن) کے 24، اور جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی-ف) کے 5 سینیٹرز نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے چار، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے تین، تین، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے دو اور مسلم لیگ (ق) کے ایک سینیٹر نے بھی بل کی حمایت کی۔
یہ بل، جسے آئینی پیکج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان بالا میں پیش کیا۔ اس مسودے کو دن کے آغاز میں وفاقی کابینہ نے منظور کیا تھا۔
اس قانون سازی میں آئینی ترامیم کا ایک مجموعہ تجویز کیا گیا ہے، جن میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع بھی شامل ہے۔
وزیر قانون نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کرنے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل متعارف کرانا چاہتا ہوں۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے استفسار کیا کہ کیا اس کی مخالفت کی جارہی ہے جس پر انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔
وزیر قانون نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے عمل میں تبدیلی کی۔
انہوں نے کہا کہ تاہم 19 ویں ترمیم نے آئین کے توازن کو درہم برہم کردیا اور اسے جلد بازی میں منظور کرلیا گیا۔
وزیر قانون نے الزام عائد کیا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت قائم کردہ عدالتی کمیشن کو 19 ویں ترمیم کی منظوری دینے کے لیے مجبور کیا گیا اور کسی خاص ادارے کی طرف جھکاؤ نے پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات کو کم کر دیا۔
آئینی پیکج میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق افواہوں پر بات کرتے ہوئے وزیر قانون نے واضح کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کسی توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ کہ اعلیٰ ترین جج کے ساتھ میری تین ملاقاتوں کے دوران انہوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع میں عدم دلچسپی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی ترمیم نافذ العمل ہوگی۔
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین ایک ’سماجی معاہدہ‘ ہے جو قوم کو جوڑتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اتفاق رائے نہ ہو تو آئین اپنی قوت کھو سکتا ہے۔ علی ظفر نے اس بات پر زور دیا کہ ترامیم میں عوام کی مرضی کی عکاسی ہونی چاہیے۔
انہوں نے آرٹیکل 58 (2) (بی) کا حوالہ دیا، جس کے تحت صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہے، اور کہا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کس طرح اس شق سے متاثر ہوئی تھیں۔ علی ظفر نے 26 ویں ترمیم میں عجلت سے کام لیے جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کو اس عمل سے باہر رکھا گیا ہے۔
عمران خان سے ملاقات کے بعد علی ظفر نے بل میں ”سنگین غلطیوں“ پر تشویش کا اظہار کیا اور آئینی بنچز کے کردار کے حوالے سے ابہام کی پیشگوئی بھی کی۔
انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین کو آگاہ کیا کہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ ہے کہ وہ آئینی ترمیم پر ووٹ نہیں دے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے تمام ممبران سے دستخط لے لئے ہیں۔ انہوں نے چیئرمین سینیٹ سے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کا کوئی سینیٹر ووٹ دیتا ہے تو اسے شمار نہ کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ”کسی بھی عمل“ کا حصہ نہیں تھے اور انہیں ”ایک بھی شق“ فراہم نہیں کی گئی۔
سینیٹ اجلاس سے قبل وزیر قانون نے وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ سے خطاب کیا۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ حکومت 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے اصول پر نظر ثانی کرنے جا رہی ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان کا انتخاب تین سینئر ترین ججوں میں سے کیا جائے گا۔
وزیر قانون نے بتایا کہ مسودے میں صوبوں میں آئینی بنچز کی تشکیل کے لیے ایک طریقہ کار شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بینچز قائم کرنے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ ماضی میں، عدالتی کمیشن، جس میں پانچ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ شامل تھے، نے یہ فیصلہ کیا تھا۔
وزیر قانون نے بتایا کہ وزیر اعظم نے یہ حق پارلیمنٹ کو منتقل کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کمیٹی میں اپوزیشن اور حکومت کا تناسب برابر ہوگا۔ ایک 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جس میں آٹھ ایم این ایز اور چار سینیٹر شامل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کی متناسب نمائندگی ہوگی، یہ کمیٹی وزیراعظم کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ نام تجویز کرے گی جس کے بعد چیف جسٹس کا تقرر کیا جائے گا۔
وزیر قانون نے یہ بھی کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ تقرری کے عمل میں شفافیت ہوگی، چیف جسٹس کی مدت تین سال کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ مستقبل میں جسٹس منصور علی شاہ کی تقریباً تین سال سے کچھ زیادہ مدت باقی ہے۔ تاہم اب چیف جسٹس کی مدت 3 سال یا ریٹائرمنٹ کی عمر تک مقرر کی گئی ہے چاہے اس میں ریٹائرمنٹ کی عمر یا پھر طے کردہ مقررہ مدت پہلے آجائے۔
پی ٹی آئی کا 26 ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ سے گریز کرنے کا فیصلہ
قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بارسٹر گوہر علی خان نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دے گی۔
انہوں نے یہ اعلان مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کہا کہ ان کی جماعت کے ارکان کو ہراساں کیا گیا ہے اور انہیں دھمکیاں دی گئی ہیں، لہذا پارٹی اس عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔
ان کے یہ ریمارکس وفاقی کابینہ کی جانب سے آئینی ترمیم کے بل کے مسودے کی منظوری کے بعد سامنے آئے۔
Comments