آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی منسوخی
حکومت کی جانب سے پاکستان کے 5 پرانے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ بجلی خریداری کے معاہدوں (پی پی اے) کو ختم کرنے کا فیصلہ ملک کے توانائی شعبے میں اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس پیش رفت سے آئی پی پیز کے کام کرنے والے ٹیک اینڈ پے ماڈل کو ختم کیا جائے گا جس سے مستقبل میں 411 ارب روپے کی بچت اور بجلی کے اوسط ٹیرف میں 71 پیسے فی یونٹ کی کمی آئے گی۔
جیسا کہ بار بار نشاندہی کی گئی ہے، ان یکطرفہ معاہدوں کی وجہ سے حکومت سال تک آئی پی پیز کو اربوں روپے کے کپیسٹی پیمنٹس کرنے پر مجبور رہی، جبکہ ان کے بہت سے بجلی گھر بند رہے، جس سے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور وسیع پیمانے پر معاشی بحران پیدا ہوا۔
ملک کی معیشت کی انتہائی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے، حکومت کے اس فیصلے کی حمایت ایک معقول موقف ہوسکتا ہے؛ ایسا نہ کرنے کی صورت میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی معاشی بقا کو یقینی بنانا ایک انتہائی مشکل کام ہوتا۔
تاہم اس صورتحال نے ایک تلخ تاثر چھوڑا ہے کیونکہ اس میں خودمختار معاہدوں کی منسوخی شامل تھی جس سے سرمایہ کاری کے ماحول پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
یہ بات اس سے واضح ہوتی ہے کہ پبلک لسٹڈ آئی پی پیز کے حصص کی قیمتوں میں تیزی سے کمی آئی ہے جو صرف 3 ہفتوں میں 13 سے 26 فیصد تک گرچکی ہیں جبکہ ان کی خالص آمدنی اور ڈیوڈنڈ کی ادائیگیاں بھی کم ہونے والی ہیں۔
اس کے باوجود توانائی کے شعبے میں بدنظمی، بجلی کی کھپت میں شدید کمی اور اس کے نتیجے میں خطرناک حد تک معاشی سست روی نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ یہ قدم اٹھائے۔ اس پیش رفت کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس افسوسناک کہانی کی وسیع تر تاریخ کو بھی تسلیم کیا جائے۔
آئی پی پیز جس ٹیک اینڈ پے ماڈل پر کام کررہے ہیں وہ پاکستان کیلئے کوئی انوکھا نہیں ہے کیونکہ خطے کے کئی ممالک میں بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس اسی طرح کام کرتے ہیں جہاں بجلی کا واحد خریدار ہوتا ہے ، لہذا جب 1990 کی دہائی اور بعد کے سالوں میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کئے گئے تو پاکستان کو خطے میں مقابلے کے دوران سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لیے مسابقتی اور منافع بخش شرائط پیش کرنا پڑیں، خاص طور پر اس وقت جب ملک سلامتی کے خدشات، بدعنوانی اور غیر مستحکم ہمسائیگی کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھا۔
یہاں مسئلہ یہ تھا کہ پالیسی ساز ان شرائط پر معاہدوں پر دستخط کرنے میں بہت آگے چلے گئے جو وقت گزرنے کے ساتھ ملکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے اور بوجھ بن گئے۔
پاکستان نے بہت بڑی تعداد میں پاور پلانٹس لگائے اور اگرچہ ابتدائی ہدف مستقبل کی ترقی کیلئے منصوبہ بندی کرنا تھا، لیکن متوقع اقتصادی توسیع حقیقت نہ بن سکی۔
اس کے نتیجے میں گنجائش میں اضافہ ہوا، بے کار پاور پلانٹس معیشت سے اربوں روپے نکال رہے ہیں، جس کا غیر متناسب اثر غریب طبقات اور کاروباری ماحول پر پڑا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ مالی سال 2013-18 کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے فیصلوں نے اس بدنظنی کو مزید بڑھا دیا۔ ملک میں جاری بڑے پیمانے پر لوڈشیڈنگ کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں، اس نے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا، جس سے پورا نظام ناقابل انتظام ہوگیا۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) کی چھتری تلے مہنگے درآمدی کوئلے اور (آر ایل این جی) مائع قدرتی گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس قائم کیے گئے جب کہ قطر کے ساتھ طویل مدتی آر ایل این جی معاہدوں پر دوبارہ ٹیک اینڈ پے کی بنیاد پر کیے گئے تھے، جو پاور پلانٹس کو ایندھن فراہم کرنے کا ایک اور مہنگا طریقہ ثابت ہوا۔
اس کے بعد پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے پی پی ایز میں ڈالر انڈیکسیشن شق پر نظر ثانی کے اقدامات، جس کے نتیجے میں روپے کی قدر میں کمی کے درمیان بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک حد مقرر کی گئی، واضح طور پر ناکافی حل تھا، یوں، ہم خود کو اس موجودہ حالت میں پاتے ہیں جہاں حکومت کو دیرینہ معاہدے ختم کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، جو کہ واقعی ایک مایوس کن وقت کے لیے ایک مایوس کن اقدام ہے۔
اس بدقسمت تاریخ سے بہت سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، سب سے اہم سبق یہ ہے کہ سرمایہ کاری اور توانائی معاہدوں پر بات چیت کیلئے غیر معمولی حد تک احتیاط، جانچ، صلاحیت، گہری معلومات اور دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے، جو واضح طور پر پاکستانی پالیسی سازوں میں کمی کا شکار ہیں۔
سیاسی مصلحتوں اور بنیادی نااہلیوں نے اکثر اچھے معاشی فیصلوں کو نقصان پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے ہم موجودہ افسوسناک حالت تک پہنچے ہیں۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ اگر ہم مستقبل کے اقتصادی بحران سے بچنا چاہتے ہیں جو ملک کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، تو اقتصادی فیصلے کرتے وقت ایک طویل مدتی اسٹریٹجک نقطہ نظر کو اپنانا لازمی ہے۔
کاپی رائٹ: بزنس ریکارڈر، 2024
Comments