پاکستان

عالمی تجارت کیخلاف پالیسیوں، پابندیوں کا مقابلہ کرنا ناگزیر، ایس سی او کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جاری

  • شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان حکومت کی کونسل کا 23 واں اجلاس اسلام آباد میں اختتام پذیر
شائع October 16, 2024 اپ ڈیٹ October 17, 2024

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)، جو ایک یوریشین سکیورٹی اور سیاسی گروپ ہے، نے بدھ کے روز کہا کہ وہ تحفظ پسند تجارتی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں جاری رکھنا ضروری سمجھتا ہے جو عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے قواعد و ضوابط کے منافی سمجھے جاتے ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ممالک کے سربراہان حکومت کی کونسل کا 23 واں اجلاس بدھ کو اسلام آباد میں اختتام پذیر ہونے کے بعد دفتر خارجہ کی جانب سے اس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس پر چین، روس، ایران، بھارت اور میزبان پاکستان سمیت 10 ممالک نے دستخط کیے ہیں۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ وفود کے سربراہان اس بات کو اہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تحفظ پسندانہ تجارتی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ کوششیں جاری رکھی جائیں جو عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او کے قوانین اور ضوابط کے منافی ہیں، اور ڈبلیو ٹی او کی بنیاد پر غیر امتیازی، واضح، منصفانہ، جامع اور شفاف کثیر الجہتی تجارتی نظام کو مضبوط بنانے پر کام جاری رکھا جائے۔

انہوں نے تحفظ پسندانہ اقدامات، یکطرفہ پابندیوں اور تجارتی پابندیوں کی بھی مخالفت کی جو کثیر الجہتی تجارتی نظام کو کمزور کرتے ہیں اور عالمی پائیدار ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔

وفود کے سربراہان نے اس بات پر زور دیا کہ پابندیوں کا یکطرفہ اطلاق بین الاقوامی قانون کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس سے تیسرے ممالک اور بین الاقوامی اقتصادی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

امریکہ اور کینیڈا نے چینی مصنوعات جیسے الیکٹرک گاڑیوں، ایلومینیم اور اسٹیل پر محصولات میں اضافہ کیا ہے اور یورپی یونین بھی اس کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہے۔ بیجنگ نے ان اقدامات کو امتیازی قرار دیتے ہوئے جوابی کارروائیوں کا اعلان کیا ہے، جس سے تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن روس اور ایران کو مغرب کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ دونوں کے پاس دنیا کے سب سے بڑے توانائی کے وسائل ہیں۔

پابندیوں کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے ممالک ان دونوں ممالک کے ساتھ تجارت سے کترا رہے ہیں تاہم چین اور بھارت جیسی بڑی بااثر معیشتیں ان سے توانائی کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہیں۔

توانائی کی قلت کا شکار پاکستان اپنے پڑوسی ایران سے گیس یا ایندھن درآمد نہیں کرتا، حالانکہ یہ معاشی لحاظ سے فائدہ مند ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہے، کیونکہ اسلام آباد کو امریکی پابندیوں کا خدشہ ہے۔

’بی آر آئی میں توسیع‘

اس سے قبل اجلاس میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی توسیع پر زور دیا۔

انہوں نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) جیسے فلیگ شپ منصوبے کی توسیع ہونی چاہئے جبکہ اس کی توجہ سڑک، ریل اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے جس سے ہمارے خطے میں رابطوں اور تعاون میں اضافہ ہو۔

بی آر آئی عالمی بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے نیٹ ورکس کے لئے ایک ٹریلین ڈالر کا منصوبہ ہے جسے چین نے ایک دہائی قبل ایشیا کو افریقہ اور یورپ کے ساتھ زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے جوڑنے کے لئے شروع کیا تھا۔

روس سمیت 150 سے زائد ممالک نے اس میں شامل ہونے کے لیے دستخط کیے ہیں۔

بیجنگ کے حریف بی آر آئی کو چین کے لئے اپنے جغرافیائی اور معاشی اثر و رسوخ کو پھیلانے کے ایک ہتکھنڈے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

مغربی ممالک نے جی سیون پلیٹ فارم کے تحت گزشتہ سال 600 ارب ڈالر کے مسابقتی کنکٹیویٹی انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ پلان کا اعلان کیا تھا۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) بی آر آئی کا ایک حصہ ہے اور بیجنگ نے پاکستان میں سڑکوں کے نیٹ ورک، ایک اسٹریٹجک بندرگاہ اور ایک ہوائی اڈے کے لئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

Comments

200 حروف