وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملکی معیشت مثبت سمت کی جانب بڑھ رہی ہے اور آئندہ دو ہفتوں میں زرمبادلہ ذخائر 11 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔
چائنہ چیمبر آف کامرس کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم میکرو اکنامک استحکام کی جانب بڑھ رہے ہیں، گزشتہ 12 سے 14 ماہ کے دوران ایکسچینج ریٹ مستحکم رہا۔
آئندہ دو ہفتوں میں زرمبادلہ ذخائر 11 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس زرمبادلہ ذخائر تقریبا ڈھائی ماہ کی درآمدات کیلئے کافی ہیں۔ عالمی بہتر معیار تین ماہ کا درآمدی احاطہ ہے۔ لہٰذا، ہم صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسے مسائل، جیسے چینی کمپنیوں کو منافع کی ترسیل میں تاخیر، دوبارہ پیش نہیں آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں انفرااسٹرکچر تیار کیا جا رہا ہے اور دوسرا مرحلہ اس انفرااسٹرکچر کو مونیٹائز کررہا ہے تاکہ پاکستان کے لیے برآمدی سرپلس پیدا کیا جا سکے۔
وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں اور صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کی مدد سے ہم سی پیک کے دوسرے مرحلے کی جانب بڑھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ دوسرا مرحلہ پورے خطے کے لئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔
انہوں نےکہا کہ چین نے بجلی کے منصوبوں میں 20 ارب ڈالر سے زیادہ کی بڑی سرمایہ کاری کی ہے، جو پاکستان کے توانائی کے منظرنامے کو بدل دے گا۔ سی پیک کے تحت بجلی کے منصوبوں نے 9ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کی ہے، دو تہائی کوئلے کی کانوں کی ترقی کی ہے اور پہلے 4 ہزار میگا واٹ مٹیاری لاہور ہائی وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ (ایچ وی ڈی سی) ٹرانسمیشن لائن منصوبے کا آغاز کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی کمپنیوں کی جانب سے آئی پی پیز میں سرمایہ کاری پاکستان کی تاریخ میں قرضوں اور ایکویٹی دونوں کے لحاظ سے سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ ان آئی پی پیز نے سرمایہ کاروں کے لیے مختلف کلاسز کے لیے نئے دروازے بھی کھولے۔
چین نے ہائیڈل، شمسی، ہوا اور بجلی پیدا کرنے کے دیگر ذرائع میں سرمایہ کاری کی ہے۔ جبکہ ہم ان چینی کمپنیوں اور قرض دہندگان سے مالیاتی شرائط میں کچھ ریلیف کی توقع کر رہے ہیں، لیکن ہم منصوبوں اور قرض دہندگان کو اپنی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے مکمل طور پر پرعزم ہیں۔
پاکستان میں چینی کمپنیوں کے بزنس کلائمیٹ انڈیکس کی رپورٹ کے جواب میں انہوں نے پالیسی کے تسلسل کے فقدان پر اتفاق کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو پالیسی فریم ورک اور پالیسی تسلسل فراہم کرنا ہوگا اور کاروبار میں ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کو اس سطح کا تسلسل فراہم کرنا چاہئے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ حکومت چینی انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ کیے گئے وعدے کی پاسداری کرے گی کیونکہ چینی کمپنیوں نے بجلی کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔
چینی کمپنیوں کی سیکیورٹی خدشات کے بارے میں محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ صدر/ وزیر اعظم، چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیر داخلہ چینیوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے ماضی میں ہونے والے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے گزشتہ دہائی کے ابتدائی برسوں میں پاکستان کو درپیش توانائی کے بدترین بحران پر قابو پانے میں مدد کرنے پر چین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) دونوں ممالک کے درمیان قربت اور مثالی دوستی کا مظہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ پورے خطے کی خوشحالی کا منصوبہ ہے۔ سی پیک کے تحت ساہیوال کول پاور پراجیکٹ، تھر کول پراجیکٹ، کراچی پورٹ انرجی پراجیکٹ سمیت توانائی کے منصوبے چین نے شروع کیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں جب پاکستان کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا تھا اور 8 سے 19 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول کی بات تھی تو سی پیک کے تحت توانائی کے متعدد منصوبے شروع کیے گئے اور ان منصوبوں سے پاکستان کو توانائی کی قلت پر قابو پانے میں مدد ملی۔
انہوں نے کہا کہ 2013 سے 2018 تک کی کامیابی کا سفر بنیادی طور پر اس لیے ممکن ہوا کہ چین نے پاکستان کو اپنی توانائی کے شعبے کو دوبارہ منظم کرنے میں مدد فراہم کی، جبکہ ایٹمی، کوئلہ، ہائیڈرو، شمسی توانائی کے اچھے منصوبے لائے، کیونکہ چین کو یقین تھا کہ پاکستان کا توانائی کا بحران ٹیکنالوجی کے جدید طریقوں، متنوع سازی اور توانائی کے شعبے کے دوبارہ ڈھانچے کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 5.8 فیصد تھی اور مہنگائی صرف 4 فیصد تھی۔ ملک کی معیشت اب بہتری کی طرف گامزن ہے اور چین نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری قابل ستائش ہے کیونکہ دونوں ممالک سی پیک کے اگلے مرحلے کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں وزیراعظم شہبازشریف کے دورہ چین کے دوران مفید بات چیت ہوئی۔
انہوں نے پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیدونگ، چینی قیادت اور چینی کمپنیوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے پاکستان کو نہ صرف توانائی بحران پر قابو پانے بلکہ معاشی ترقی کو فروغ دینے اور ملک کے عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں مدد فراہم کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ان کیلئے فخر کی بات ہے کہ وہ چینی وزیراعظم کے تاریخی دورہ پاکستان کے موقع پر خطاب کر رہے تھے اور یہ پاکستانی عوام کے لئے خوشی کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت پاکستان اور چین کاروباری تعاون کو فروغ دے رہے ہیں اور یہ مرحلہ پورے خطے کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے چین کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی مشکل ترین صورتحال میں کسی بھی بحران پر قابو پا سکتا ہے۔
چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ علاقائی اور عالمی سطح پر تیز رفتار جغرافیائی اقتصادیات اور جغرافیائی تزویراتی تبدیلیاں معاشی انضمام کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔
چائنا چیمبر آف کامرس ان پاکستان (سی پی کے) کی رپورٹوں کی اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی اجتماعی طاقتوں کو بروئے کار لائیں اور علاقائی رابطوں اور تعاون کو فروغ دے کر پائیدار ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار کریں۔
چیئرمین نے ”شاندار 11 سال – کس طرح چینی کمپنیوں نے پاکستان میں توانائی کے شعبے کو نئی شکل دی“ اور ”پاکستان میں چینی کمپنیوں کا کاروباری ماحول“ کے عنوان سے رپورٹس کی تعریف کی۔
گیلانی نے کہا کہ پاکستان اپنے شراکت دار ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دے کر علاقائی تعاون کو مضبوط بنانا چاہتا ہے ۔
انہوں نے پاکستان کے اسٹریٹجک محل وقوع، قدرتی وسائل اور کثیر تعداد میں افرادی قوت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ایک پرکشش منزل بنانے والے عوامل پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے بزنس ٹو بزنس روابط کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پائیدار شراکت داری براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرسکتی ہے، ٹیکنالوجی کے تبادلے کو فروغ دے سکتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کو آسان بناسکتی ہے۔
تقریب کے انعقاد پر پاکستان میں چائنا چیمبر آف کامرس کی تعریف۔
پاکستان میں تھری گورجز ساؤتھ ایشیا انویسٹمنٹ کمپنی کے وائس جنرل منیجر لیو یانگ گانگ نے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں چینی کمپنیوں کی کارکردگی اور کامیابیوں پر روشنی ڈالی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments