جیسا کہ دنیا اسرائیل کے ایران کے میزائل حملے کے جواب کا انتظار کر رہی ہے، عالمی تیل کی مارکیٹ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ہفتہ وار نقل و حرکت کے انداز میں ، جو کہ چھ سالوں میں پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے، تیل کی قیمتیں ہر ہفتے اتار چڑھاؤ کا شکار ہورہی ہیں۔ اس دوران بنیادی عوامل زیادہ تر برقرار رہے ہیں جبکہ رسد اور طلب کے دونوں محاذوں پر کچھ توازن قائم ہوا ہے۔

جو چیز واضح طور پر خراب ہوئی ہے وہ جغرافیائی سیاسی استحکام کا نقطہ نظر ہے۔ اگرچہ پیداوار اور نقل و حمل دونوں کے لحاظ سے تیل کی فراہمی میں طبعی طور پر خلل کسی معنی خیز حد تک عمل میں نہیں آیا ہے - یہ وہ خطرہ ہے جو ایک ماہ پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ آج کے مقابلے میں طویل عرصہ کے دوران کبھی بھی مکمل علاقائی جنگ کے قریب نہیں رہا اور یہ مناسب ہے کہ اس صورت حال کو ان چھوٹی جھڑپوں سے زیادہ اہمیت دی جائے جن کی عادی دنیا ہے۔

برینٹ خام تیل کی قیمت کا 80 ڈالر فی بیرل کی طرف بڑھنا، جو کہ تین سال کی کم ترین سطح پر جانے کے بعد ہوا، دراصل تقریباً 20 ماہ میں سب سے تیز ہفتہ وار اضافے کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل کے ایرانی حملے کے جواب کا وقت اور طریقہ ابھی تک غیر یقینی ہے – اور تیل کی مارکیٹ کا ردعمل اسی کے مطابق ہوگا۔ الگورڈو مارکیٹ میں قیاس آرائیوں نے پچھلے مہینے کی تیز مندی سے اندازے تبدیل کر کے تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کے دعووں پر دھیان دینا شروع کر دیا ہے جو سال کے آخر تک متوقع ہے۔

ایران کے تیل کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کیلئے ممکنہ اسرائیلی حملے پر گولڈمین سیکس اور سٹی جیسی کمپنیوں نے تعطل کے منظرنامے کا خاکہ تیار کیا ہے۔ اگرچہ عالمی نظام میں ایران سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے کافی ذخیرہ موجود ہے لیکن ذخائر سے تیل نکالنے میں وقت لگے گا اور چین کی ضروریات کو پورا کرنا ایک رات کا کام نہیں۔ یاد رہے کہ چینی طلب ممکنہ طور پر دوبارہ منظم ہونے میں مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے لیکن حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی نے 2024 کے بقیہ دنوں کے لئے مضبوط طلب برقرار رکھنے کے لئے کافی پیش کش کی ہے۔

دریں اثنا پاکستان میں حکام خوردہ قیمتوں کو پیٹرولیم لیوی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے بچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یکطرفہ ٹیکسز کا انتخاب پاکستان کی خصوصیت ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور امکان ہے کہ حکومت مالی سال کی دوسری ششماہی میں ٹیکس محصولات میں بھاگ دوڑ کرسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی باضابطہ طور پر واپسی کے بعد مالی سال 2025 کی دوسری سہ ماہی کے اختتام پر محصولات کے اہداف کو پورا کرنے کا دباؤ بڑھ جائے گا۔ جلد یا بدیر حکام کو پٹرولیم لیوی کے خلاف اپنی مزاحمت ترک کرنا پڑے گی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کے وقت انہیں مشکل طریقے سے ایسا کرنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ جب قیمتیں گر رہی تھیں تو وہ فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔

Comments

200 حروف