حزب اللہ نے اسرائیل کے تیسرے سب سے بڑے شہر حیفہ پر راکٹ داغے اور حماس نے ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہونے کا عزم ظاہر کیا جبکہ اسرائیل لبنان میں اپنی جارحیت کو بڑھانے کے لئے تیار نظر آتا ہے۔

اسرائیلیوں نے فلسطینی گروپ حماس کی جانب سے اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کی پہلی برسی کے موقع پر پیر کے روز تقریبات اور مظاہروں کا انعقاد کیا کیونکہ غزہ کا تنازع مشرق وسطیٰ میں پھیل چکا ہے اور علاقائی جنگ کے خدشات کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

حماس، جس نے فلسطینی علاقے غزہ کو اسرائیل کی جنگ کی وجہ سے برباد ہوتے دیکھا ہے، نے ایک سال کی لڑائی سے بھاری نقصانات کے باوجود راکھ سے ”فینکس کی طرح“ اٹھنے کا عزم کیا ہے۔

پیر کے روز لبنان میں حماس کی اتحادی ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ نے کہا تھا کہ اس نے حیفہ کے جنوب میں ایک فوجی اڈے کو ”فادی 1“ میزائلوں سے نشانہ بنایا اور 65 کلومیٹر (40 میل) دور تیبریاس پر ایک اور حملہ کیا۔

گروپ نے بعد میں کہا کہ اس نے حیفا کے شمال میں واقع علاقوں کو بھی میزائلوں سے نشانہ بنایا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ پیر کے روز تقریبا 190 میزائل اسرائیل کی حدود میں داخل ہوئے۔

کم از کم 12 افراد زخمی ہوئے۔

 ۔
۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ فضائیہ جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر بڑے پیمانے پر بمباری کر رہی ہے اور دو اسرائیلی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں جس کے بعد لبنان کے محاذ پر اسرائیلی فوج کی ہلاکتوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے۔

اسرائیلی فضائی حملوں نے لبنان میں 1.2 ملین افراد کو بے گھر کر دیا ہے اور اسرائیل کی شدید بمباری نے بہت سے لبنانیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ ان کے ملک کو اسرائیل کی طرف سے غزہ کی طرح بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسرائیلی افواج نے ساحل پر جانے والوں اور کشتی استعمال کرنے والوں کو عربی زبان میں متنبہ کیا ہے کہ وہ لبنان کے ساحل کے ایک حصے سے گریز کریں اور کہا کہ وہ جلد ہی سمندر سے حزب اللہ کے خلاف کارروائیاں شروع کریں گے۔

لبنان کی وزارت صحت نے سرحدی علاقے میں ایک میونسپل عمارت پر فضائی حملے میں 10 فائر فائٹرز سمیت درجنوں افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔

ایک سال قبل حماس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر فائرنگ شروع کیے جانے کے بعد سے اب تک تقریبا دو ہزار لبنانی مارے جا چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے لبنان میں اپنی زمینی کارروائی کو ”مقامی، محدود ہدف“ قرار دیا ہے، لیکن گزشتہ ہفتے سے اس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

اسرائیلی دفاعی فورس (آئی ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان سرحدی علاقوں کو کلیئر کرانا ہے جہاں حزب اللہ کے جنگجو موجود ہیں، اور لبنان میں اندر تک جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے سپر پاور اتحادی امریکہ کا ماننا ہے کہ لبنان میں زمینی آپریشن محدود ہے۔

بڑھتے ہوئے تنازعے نے ان خدشات کو بڑھا دیا ہے کہ امریکہ اور ایران تیل پیدا کرنے والے خطے میں وسیع پیمانے پر جنگ میں پھنس جائیں گے۔

ایران نے یکم اکتوبر کو حماس کی حمایت میں اسرائیل پر میزائل داغے تھے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ جوابی کارروائی کرے گا اور اپنے آپشنز پر غور کر رہا ہے۔ ایران کی تیل کی تنصیبات ممکنہ ہدف ہیں۔

حماس کا فینکس کی طرح اٹھنے کا عزم

اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق حماس نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو تقریبا 1200 افراد کو ہلاک کیا تھا اور 250 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔

اسرائیلی سکیورٹی میں کوتاہی کے نتیجے میں نازی ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے یہ سب سے مہلک دن تھا۔

حالیہ ہفتوں میں ایران کی پراکسی فورس حزب اللہ کے کمانڈ ڈھانچے پر مہلک حملوں کے بعد بہت سے اسرائیلیوں کا فوج اور انٹیلی جنس پر اعتماد بحال ہوگیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ جنگ کی برسی کے موقع پر یروشلم میں کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے خطے میں سکیورٹی کی حقیقت کو تبدیل کر رہے ہیں، اپنے بچوں کی خاطر، اپنے مستقبل کے لیے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ 7 اکتوبر کو جو کچھ ہوا وہ دوبارہ نہ ہو۔

فلسطینی صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت نے غزہ کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے، تقریبا 42،000 افراد شہید اور اس کی 2.3 ملین آبادی میں سے زیادہ تر بے گھر ہو گئے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس اب ایک منظم فوجی ڈھانچے کے طور پر موجود نہیں ہے اور وہ گوریلا حکمت عملی تک محدود ہو چکی ہے۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہونے والی 17 ہزار فلسطینی ہلاکتوں میں سے کم از کم ایک تہائی ہلاکتیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔

غزہ میں لڑائی میں تقریبا 350 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

 ۔
۔

تاہم حماس کے جلاوطن رہنما خالد مشعل نے کہا کہ فلسطینی گروپ ایک بار پھر ابھرے گا اور وہ جنگجوؤں کی بھرتی اور ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔

غزہ جنگ کی برسی کے موقع پر رائٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں 68 سالہ خالد مشعل کا کہنا تھا کہ ’فلسطین کی تاریخ سائیکلوں پر مشتمل ہے۔

“ہم ایسے مراحل سے گزرتے ہیں جہاں ہم شہیدوں (متاثرین) کو کھو دیتے ہیں اور ہم اپنی فوجی صلاحیتوں کا ایک حصہ کھو دیتے ہیں، لیکن پھر خدا کا شکر ہے کہ فینکس کی طرح فلسطینی جذبہ دوبارہ اٹھتا ہے۔

Comments

200 حروف