امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو ایران کی تیل تنصیبات پر حملے نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بڑھتے ہوئے امکانات سے بچنے کے لیے دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ، جو اس وقت ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے کیلئے مہم چلا رہے ہیں، نے یہاں تک کہہ دیا کہ اسرائیل کو اسلامی جمہوریہ کے جوہری تنصیبات کو ”نشانہ“ بنانا چاہیے۔

وائٹ ہاؤس کے بریفنگ روم میں پہلی بار اچانک شرکت کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ اسرائیل کے بینجمن نیتن یاہو کو اگلے اقدامات کا فیصلہ کرتے وقت اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کو یاد رکھنا چاہیے۔

جو بائیڈن سے جب ایک روز قبل ان کے اس بیان کے بارے میں پوچھا گیا کہ واشنگٹن اپنے اتحادی کے ساتھ اس طرح کے حملوں کے امکان پر تبادلہ خیال کر رہا ہے تو انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگر میں اس صورتحال میں ہوتا تو تیل کے ذخائر پر حملے کے علاوہ دیگر متبادل کے بارے میں سوچ رہا ہوتا۔

بائیڈن نے مزید کہا کہ منگل کو ایران کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے بیلسٹک میزائل حملے کے جواب میں اسرائیلی اس نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔

جمعرات کو بائیڈن کے بیان کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔

قیمتوں میں طویل مدتی اضافہ امریکی نائب صدر کملا ہیرس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کا مقابلہ 5 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ریپبلکن ٹرمپ سے ہو گا جہاں بنیادی اشیا کی خریداری ایک بڑا مسئلہ ہے۔

دریں اثناء شمالی کیرولائنا میں انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اس سے کہیں زیادہ اشتعال انگیز نقطہ نظر پیش کیا کہ ان کے خیال میں ایران کو کیا جواب دینا چاہیے، انہوں نے اس ہفتے بائیڈن سے پوچھے گئے ایک سوال کا حوالہ دیا جس میں اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنائے جانے کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

ٹرمپ نے ایک بڑے امریکی فوجی اڈے کے قریب فائیٹ ویل میں ٹاؤن ہال طرز کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بائیڈن سے پوچھا کہ کیا آپ ایران کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، کیا آپ ایران کو نشانہ بنائیں گے؟ ٹرمپ کے بقول بایڈن نے کہا کہ جب تک وہ اسرائیلی جوہری تنصیبات کو نشانہ نہیں بناتے۔ ٹرمپ نے بائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہی چیز ہے جسے آپ نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ کے بقول بائیڈن نے یہ غلط بیان دیا ہے۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ جب انہوں نے ان سے یہ سوال پوچھا تو اس کا جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ پہلے جوہری ہتھیاروں کو نشانہ بنایا جائے اور پھر باقی معاملات پر غور کیا جائے۔

ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں حالیہ کشیدگی میں اضافے کے بارے میں بہت کم بات کی ہے۔ تاہم انہوں نے رواں ہفتے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے بائیڈن اور ہیرس کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

’دیکھو اور انتظار کرو‘

جو بائیڈن کے بریفنگ روم کے پوڈیم پر آنے کا پیشگی اعلان نہیں کیا گیا تھا اور ان کے آنے سے صحافی متعجب بھی ہوئے۔

بائیڈن نے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر فسادات سے بچنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، جہاں اسرائیل حزب اللہ کا صفایا کرنے کے لیے لبنان پر بمباری کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اہم چیز جو ہم کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ باقی دنیا اور ہمارے اتحادیوں کو یکجا کرنے کیلئے کوشش کریں تاکہ کشیدگی کم کی جاسکے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب آپ کے پاس حزب اللہ اور (یمن کے) حوثیوں کی طرح غیر منطقی (ایرانی) پراکسی موجود ہیں تو اس بات کا تعین کرنا ایک مشکل چیز ہے۔

تاہم بائیڈن نے نیتن یاہو کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے، جن کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں کیونکہ وہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کے ردعمل محدود کرنا چاہتے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے لبنان پر تحمل برتنے اور غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے بارے میں بائیڈن کے مطالبے کو بار بار نظر انداز کیا ہے، جس میں 40،000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

جو بائیڈن نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیا ان کے خیال میں نیتن یاہو امریکی صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے مشرق وسطیٰ کے امن معاہدے پر دستخط کرنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی انتظامیہ نے اسرائیل کی اتنی مدد نہیں کی جتنی میں نے کی ہے۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں، کوئی نہیں اور یہ صرف میں ہی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اور کیا وہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم، لیکن میں اس پر بھروسہ نہیں کر رہا ہوں۔

بائیڈن نے کہا کہ ایرانی حملے کے بعد سے انہوں نے نیتن یاہو سے کوئی بات نہیں کی ہے، جس میں تقریبا 200 میزائل شامل تھے، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ان کی ٹیمیں ”مسلسل رابطے“ میں ہیں۔

امریکی رہنما نے مزید کہا کہ وہ فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے اور اس لیے ہم انتظار کریں گے کہ وہ کب بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

ایران کا کہنا ہے کہ یہ حملہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا ہے۔

حزب اللہ 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے فورا بعد سے اسرائیل پر راکٹ داغ رہی ہے۔

Comments

200 حروف