حزب اللہ کے ساتھ ایک ہفتے سے زیادہ کی محاذ آرائی کی حکمت عملی میں تبدیلی لاتے ہوئے اسرائیل مسلسل کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ پچھلے جمعہ کو، امریکی فراہم کردہ بنکر بسٹر بموں کا استعمال کرتے ہوئے اس نے ایران کے حمایت یافتہ اس مزاحمتی گروپ کے رہنما حسن نصراللہ کو قتل کر دیا، جس سے پورے مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر صدمے کی لہر دوڑ گئی۔

اسی حملے میں حزب اللہ کے جنوبی لبنان کے کمانڈر علی قراقے، کچھ دوسرے کمانڈرز اور ایرانی انقلابی گارڈ کے کمانڈر جنرل عباس نیلفروشان بھی مارے گئے۔ اسرائیل نے جنوبی بیروت اور لبنان کے کچھ دوسرے علاقوں، بشمول وادی بقاء، پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے، جس سے اب تک ایک ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق جبکہ6 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

ملک کی آبادی کا پانچواں حصہ یعنی دس لاکھ افراد اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ کہاں جائیں۔

حسن نصراللہ لبنانی سیاست میں بہت اثر و رسوخ رکھنے والے شخصیت تھے اور عرب عوام میں اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے انتہائی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے 2000 میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی قبضہ ختم کر دیا تھا اور 2006 کی جنگ میں دوبارہ غلبہ حاصل کیا تھا۔ ان کی اور کئی اعلیٰ کمانڈرز کی موت تحریک کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔

بنجمن نیتن یاہو نے اسے ایک ”تاریخی موڑ“ قرار دیا ہے، جس پر یہودی ریاست میں بڑے پیمانے پر جشن منایا جا رہا ہے، لیکن دو اہم تاریخی اسباق کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ایک یہ کہ مزاحمتی گروہ اپنے مقتول رہنماؤں کی جگہ جلدی نئی قیادت لا سکتے ہیں۔ حسن نصراللہ نے عباس موسوی کی جگہ لی تھی، جو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنی بیوی، پانچ سالہ بیٹے اور چار دیگر افراد کے ساتھ مارے گئے تھے۔ اب شیخ نعیم قاسم کو حزب اللہ کا نیا سربراہ نامزد کیا گیا ہے، جبکہ اس کے لوگ اسرائیل پر میزائل داغ رہے ہیں۔

اسی طرح، جب حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے تہران کے دورے کے دوران قتل کر دیا، تو یحییٰ سنوار نے ان کی جگہ لے لی۔

تاریخ کا دوسرا سبق یہ ہے کہ مزاحمتی تنظیمیں، خاص طور پر حزب اللہ اور حماس جیسے نظریاتی بنیاد پر قائم گروہ، ایک برتر فوجی طاقت کے لیے جنگ جیتنا ناممکن بنا دیتے ہیں، جیسا کہ افغانستان، ویتنام اور کچھ دیگر مقامات پر دیکھا گیا ہے۔ غزہ میں بھی، ایک سال سے جاری نسل کشی کی مہم کے باوجود، اسرائیل اپنے دو کلیدی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے: اپنے یرغمالیوں کو آزاد کرانا اور حماس کو تباہ کرنا۔

اس کے کشیدگی بڑھانے کے ہتھکنڈوں نے ایک وسیع تر جنگ کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ حسن نصراللہ کی شہادت ”بغیر انتقام کے نہیں رہے گی“۔ واشنگٹن نے اتوار کو خبردار کیا کہ اگر ایران یا اس کے حمایت یافتہ گروہوں نے ”اس موقع کو امریکی اہلکاروں یا خطے میں اس کے مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا تو امریکہ اپنے لوگوں کا دفاع کرنے کے لیے ہر ضروری اقدام کرے گا۔“

دریں اثنا، پینٹاگون نے مشرق وسطیٰ میں فضائی مدد کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے اور خطے میں تعیناتی کے لیے افواج کو زیادہ تیار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم، نہ تو ایران اور نہ ہی امریکہ — جو صدارتی انتخابات سے چند ہفتے دور ہے — براہ راست تصادم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

لیکن اسرائیل انہیں اس میں ملوث کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہر بار جب یہ توسیع پسند بدمعاش ریاست کشیدگی بڑھاتی ہے، وہ دن قریب آجاتا ہے جب کوئی فریق ایسا قدم اٹھائے گا جو پورے خطے کو آگ کی لپیٹ میں لے لے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف