توانائی کے شعبے میں بدانتظامی
توانائی شعبے کی بدحالی کا ایک اور اشارہ دیتے ہوئے پاور ریگولیٹر نیپرا نے 26 ستمبر کو ہونے والی عوامی سماعت کے دوران آئندہ مہینوں میں بجلی کے نرخوں میں بڑے اضافے کی پیش گوئی کی ہے، جو کہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہوگی۔ یہ پریشان کن تخمینے ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب بجلی کی مجموعی کھپت میں 20 فیصد کی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
بجلی کے بلند نرخوں اور اس کے نتیجے میں طلب میں کمی اتنی زیادہ ہے کہ آئندہ ماہ ایندھن کی قیمتوں میں معمولی کمی سے حاصل ہونے والے کسی بھی ممکنہ فائدے کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
بجلی کی طلب میں کمی کے واضح اقتصادی نتائج سنگین نوعیت کے ہیں، جو صنعتی سرگرمی میں کمی، پیداوار کی کم سطح کے ساتھ صارفین کے اخراجات میں کمی کی نشاندہی کرتے ہیں، جو وسیع تر معاشی سست روی کی عکاسی کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ جتنا پیچیدہ مسئلہ ہے، بجلی کی کھپت کو بحال کرنا اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینا ضروری ہے، اور اس کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کیلئے کوئی حل نکالنا ہوگا۔
تاہم، ایک انتہائی تشویشناک صورتحال کا سامنا ہے جہاں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت کو ایسی ٹیرف پالیسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے جو مکمل لاگت کی وصولی کو یقینی بنائے، یعنی بجلی کی پیداوار کی کل لاگت صارفین سے وصول کی جائے، اور بل کی مکمل ادائیگی ہو، جس میں سبسڈیز کے لیے محدود گنجائش ہو۔
یہ واضح ہے کہ پالیسی سازوں کو جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو بجلی کی پیداوار کی لاگت کو کم کرنے اور توانائی کی ویلیو چین میں موجود خامیوں کو دور کرنے پر مرکوز ہو، جن میں نظام کے نقصانات اور بجلی کی چوری کا حل بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ملک کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن (ٹی اینڈ ڈی) نیٹ ورک کی اپ گریڈیشن میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جس سے اس کی صلاحیت اور اعتمادیت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور سالانہ ٹی اینڈ ڈی نقصانات کی مد میں اربوں روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔
جب بجلی کی پیداواری لاگت کو حل کرنے کی بات آتی ہے ، جیسا کہ بار بار نشاندہی کی گئی ہے، آئی پی پیز کو دی جانے والے کیپیسٹی چارجز کل توانائی کی لاگت کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں جو اس وقت صارفین ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے تشکیل کردہ ٹاسک فورس نے مبینہ طور پر آئی پی پیز کو ایک ”ٹیک اینڈ پے“ ماڈل کی طرف منتقلی اور ان کے ٹیرف میں کمی کی سفارش کی ہے۔
تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ زیادہ تر آئی پی پیز تھرمل پاور پر چلتی ہیں، جو کہ طویل عرصے سے ملک میں بجلی کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ رہا ہے، حالیہ برسوں میں پن بجلی، ایٹمی اور قابل تجدید ذرائع پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حکومت بجلی کی لاگت میں کمی چاہتی ہے تو وہ صرف تھرمل پاور پر چلنے والی آئی پی پیز کی اصلاحات پر توجہ نہیں دے سکتی۔
مزید برآں، متبادل ذرائع، جیسے کہ چھتوں پر لگائے جانے والے سولر پینلز، کے ذریعے بجلی کے استعمال میں کمی کا معمہ بھی درپیش ہے۔ جیسے ہی آن گرڈ بجلی کی طلب میں کمی آتی ہے، بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی فکسڈ لاگت کو کم صارفین پر پھیلانا پڑتا ہے، جس سے آن گرڈ صارفین کے لیے ٹیرف میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
توانائی شعبے کی وسیع تر بدانتظامی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) نے پٹرولیم ڈویژن کو مطلع کیا ہے کہ وہ آر ایل این جی اور مقامی گیس سپلائی چین کے حوالے سے ادائیگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔
اس نے انکشاف کیا کہ ستمبر میں آر ایل این جی سپلائرز کو موجودہ سطح کی سپلائی کے لیے مکمل ادائیگی ممکن نہیں ہو سکے گی، جس کے نتیجے میں اس مہینے کے لیے 22 ارب روپے کا خلا پیدا ہوگا۔ اس کی وجہ، دیگر عوامل کے ساتھ، بجلی کے شعبے کی طلب میں کمی ہے، جس کے باعث آر ایل این جی کی زائد سپلائی ہوئی ہے۔
یہ واضح ہے کہ ہمیں ایک کثیر الجہتی چیلنج کا سامنا ہے، اور معمولی اقدامات اب اس مسئلے کا حل نہیں ہوں گے۔
ایک ہمہ گیر حکمت عملی جو پالیسیوں، قواعد و ضوابط، معاہدوں، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور یوٹیلیٹیز کے آپریشنز کے باہم جڑے ہونے کو مدنظر رکھتی ہو، ساتھ ہی مجموعی معاشی اہداف کو بھی، ناگزیر بن چکی ہے۔ اور اگرچہ ایسی جامع اصلاحاتی مشق ایک تکلیف دہ عمل ہوگی، لیکن توانائی کے خراب نظام کو بحال کرنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments