الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے 14 ستمبر کے تفصیلی فیصلے کو چیلنج کردیا۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رہنمائی مانگی تھی کہ آیا مخصوص نشستوں پر اکثریتی فیصلے یا الیکشن (دوسرا) ترمیمی ایکٹ 2024 پر عمل کیا جائے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا خط موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد مخصوص نشستیں اپوزیشن جماعتوں کو الاٹ کی جائیں۔
انتخابی نگران ادارے کا کہنا ہے کہ جب اس نے پہلے اس معاملے پر وضاحت طلب کی تھی تو مذکورہ قانون موجود نہیں تھا۔ اس نے سپریم کورٹ سے رہنمائی طلب کی کہ آیا پارلیمانی قانون پر عمل کیا جائے یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ کمیشن سپریم کورٹ کے 14 ستمبر کے حکم کی تعمیل کرنے کے لئے تیار تھا۔ تاہم ایسا کرنا نئے نافذ کردہ پارلیمانی قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے 23 ستمبر کو اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے متعدد غیر قانونی اقدامات اور کوتاہیوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کیلئے الجھن اور پریشانیاں پیدا کیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جمہوری عمل میں عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے کے لئے انتخابی سالمیت کو یقینی بنانے اور عوام کی خواہشات کو برقرار رکھنے میں عدلیہ کا کردار ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ریٹرننگ افسران اور الیکشن کمیشن کے متعدد غیر قانونی اقدامات اور کوتاہیوں نے پی ٹی آئی، اس کے امیدواروں اور پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے رائے دہندگان کے لیے الجھن اور مشکلات پیدا کیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کو ریٹرننگ افسران نے انتخابی امیدواروں کی فہرست (فارم 33) میں غلط طور پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے دکھایا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے سیکشن 98 کے نوٹیفکیشن میں غلط طور پر آزاد امیدوار نوٹیفائی کیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ای سی پی ایک ضامن ادارے اور غیر جانبدار نگرانی کرنے والے کی حیثیت سے انتخابات کی شفافیت اور منصفانہ طریقے کو یقینی بنانے کا کام کرتا ہے تاکہ عوام کا اعتماد انتخابی نظام میں برقرار رہے۔
فیصلے کے مطابق یہ منتخب نمائندوں کی قانونی حیثیت اور سیاسی نظام کی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ کمیشن کو جمہوری اصولوں اور انتخابی عمل کی سالمیت کو برقرار رکھنا چاہیے تاکہ انتخابات واقعی عوام کی مرضی کی عکاسی کریں اور اس طرح قوم کی جمہوری ساخت کو محفوظ رکھیں۔
عدالت عظمیٰ نے کہاکہ بدقسمتی سے موجودہ کیس کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن نے 2024 کے عام انتخابات میں اس کردار کو پورا کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا ہے۔
پس منظر
سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا اہل قرار دیا تھا۔
جولائی کے 5-8 کے اکثریتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ انتخابی نشان واپس لینے سے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان واپس لینے سے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
Comments