اسرائیل نے جمعرات کو حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے لیے پیش کردہ تجاویز کو مسترد کر دیا اور اتحادیوں بشمول امریکہ کی درخواست کو نظر انداز کیا جس نے ایک وسیع تر جنگ سے بچنے کے لیے فوری طور پر تین ہفتوں کی لڑائی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ کاٹز کا کہنا تھا کہ ہم فتح اور شمال کے باشندوں کی بحفاظت اپنے گھروں کو واپسی تک حزب اللہ کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔

اس بیان نے فوری تصفیے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے جبکہ وزیر اعظم نجیب میکاتی نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ لبنان میں جلد ہی جنگ بندی ہو سکتی ہے جہاں لاکھوں افراد حفاظت کی تلاش میں اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔

عالمی رہنماؤں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے متوازی جاری تنازع تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تقریبا دو دہائیوں میں ہونے والی شدید ترین لڑائی نے لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر اسرائیل کے ایک نئے زمینی حملے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔

امریکہ، فرانس اور کئی دیگر اتحادیوں نے اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر فوری طور پر 21 روزہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں انتہائی بات چیت کے بعد غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کا بھی اظہار کیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ سے خطاب کے لیے نیویارک جاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ابھی تک جنگ بندی کی تجویز پر اپنا ردعمل نہیں دیا ہے لیکن فوج کو لڑنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کی حکومت میں سخت گیر موقف رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو کسی بھی جنگ بندی کو مسترد کر دینا چاہیے اور حزب اللہ کو اس وقت تک نشانہ بنانا جاری رکھنا چاہیے جب تک کہ وہ ہتھیار نہ ڈال دے۔

اسرائیل نے 2006 کی جنگ کے بعد لبنان کے خلاف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سب سے بڑے فضائی حملے کیے ہیں جس میں 600 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

حزب اللہ نے اسرائیل میں اہداف پر سیکڑوں میزائل داغے ہیں جن میں پہلی بار اس کا تجارتی مرکز تل ابیب بھی شامل ہے، حالانکہ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ نقصان محدود ہو۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جلد ہی جنگ بندی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، لبنانی رہنما میکاتی نے رائٹرز کو بتایاکہ ہاں امید قوی ہے۔ ان کی نگران انتظامیہ میں حزب اللہ کے منتخب کردہ وزراء شامل ہیں جنہیں لبنان کی سب سے طاقتور سیاسی قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

بدھ کے روز اسرائیلی فوج کے سربراہ نے لبنان پر زمینی حملے کے امکان کے بارے میں اب تک کا سب سے واضح عوامی تبصرہ کرتے ہوئے سرحد کے قریب موجود فوجیوں سے کہا تھا کہ وہ سرحد پار کرنے کے لیے تیار رہیں۔

لبنان کے وزیر ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے شام اور لبنان کے درمیان سرحد ی گزرگاہ کو نشانہ بنایا ہے۔

لبنان کے شہر کے میئر علی قصاص نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ لبنان کے شہر یونس میں ایک تین منزلہ عمارت پر اسرائیل کے حملے میں کم از کم 23 شامی شہری جاں بحق ہو گئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ لبنان میں تقریبا 1.5 ملین شامی باشندے رہتے ہیں جو وہاں خانہ جنگی سے فرار ہو گئے تھے۔

کیا آپ نے سنا کہ ڈی جی خان سیمنٹ (پی ایس ایکس: ڈی جی کے سی) نے سیمنٹ کی برآمدات کے ذریعے امریکی مارکیٹ میں شاندار داخلہ لیا؟ یہ وہ مقام ہے جس کی دوسری حریف کمپنیاں خواہش کر سکتی ہیں لیکن ڈی جی خان سیمنٹ دباؤ میں ڈوب رہی ہے۔

اسکولوں میں پناہ

ہزاروں لبنانیوں نے بیروت کے اسکولوں میں پناہ لی ہے۔ ان میں سے ایک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین کلاس روم کی کھڑکیوں سے باہر جھانک رہی ہیں اور ہاتھ میں کوئی چیز تھامے خود کو ہوا دے رہے ہیں۔

ایک خاتون کا کہنا تھا کہ میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا رات کو تھوڑی سی بجلی ہوگی تاکہ میں پنکھا خرید سکوں۔

امدادی تنظیمیں کپڑے اور کھانا تقسیم کر رہی تھیں اور عمر رسیدہ افراد کو درکار ادویات کی جانچ کر رہی تھیں جو عجلت میں گھروں سے نکلنے کے باعث اپنے نسخے ساتھ نہیں لاسکے تھے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جمعرات کی صبح متعدد علاقوں میں حزب اللہ کے درجنوں ٹھکانوں بشمول جنگجوؤں، فوجی عمارتوں اور ہتھیاروں کے گوداموں پر حملے کیے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ لبنان سے مغربی الجلیل کے علاقے کی جانب تقریبا 45 میزائل داغے گئے جن میں سے کچھ کو روک لیا گیا جبکہ باقی کھلے میدان میں گر گئے۔

انتھک لڑائی نے بعض ہمسایہ ممالک کو لبنان میں رہنے والے اپنے شہریوں کی حفاظت کے بارے میں فکر مند کر دیا ہے۔ ترکی کی وزارت دفاع کے ذرائع نے جمعرات کے روز بتایا کہ ترکی لبنان سے اپنے شہریوں اور غیر ملکی شہریوں کے ممکنہ انخلا کے لیے تیاریاں کر رہا ہے۔

اسرائیل نے اپنی شمالی سرحد کو محفوظ بنانے اور تقریبا روزانہ بمباری کے تبادلے سے بے گھر ہونے والے تقریبا 70،000 رہائشیوں کی واپسی کی اجازت دینے کو ترجیح دی ہے جس کا آغاز حزب اللہ نے ایک سال قبل غزہ میں حماس کے ساتھ یکجہتی کے طور پر کیا تھا۔

پیر کے روز سے اسرائیل کے فضائی حملوں میں تیزی آئی ہے جو لبنان میں 1975 سے 1990 کی خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد تباہ کن ترین ثابت ہوا ہے کیوں کہ اس دن اسرائیل کے حملوں میں 550 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

یہ بمباری گذشتہ ہفتے لبنان بھر میں پیجراور واکی ٹاکیز کے دھماکوں کے بعد کی گئی تھی جس میں حزب اللہ کے ارکان سمیت متعدد افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔

Comments

200 حروف