لبنان میں تازہ اسرائیلی حملے، اموات 558 ہوگئیں، وسیع تر جنگ کے خدشات بڑھ گئے
- حزب اللہ نے شمالی اسرائیل میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا
اسرائیل نے منگل کے روز جنوبی لبنان پر تازہ حملے کیے ہیں جبکہ حزب اللہ نے شمالی اسرائیل میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ دونوں جانب سے حملوں کے بعد خطے میں وسیع تر جنگ کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں جبکہ اسرائیل کے حملوں سے لبنان کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران تباہ کن دن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے رات گئے حزب اللہ کے درجنوں ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ یہ حملے گزشتہ روز کیے گئے حملوں کے ایک دن بعد ہوئے ہیں جس میں لبنانی حکام کے مطابق 50 بچوں اور 94 خواتین سمیت 558 افراد جاں بحق اور 1835 زخمی ہوئے تھے۔ مزید دسیوں ہزار افراد محفوظ مقامات کی تلاش میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان اویچی ادرائی نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ ”آخری گھنٹوں“ میں جنگی طیاروں نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر بمباری کی جن میں میزائل لانچر، فوجی عمارتیں اور وہ عمارتیں شامل ہیں جہاں ہتھیار رکھے گئے تھے۔
حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس نے رات گئے اسرائیلی فوج کے متعدد اہداف کو نشانہ بنایا جن میں اسرائیل سے 60 کلومیٹر (37 میل) کے فاصلے پر دھماکہ خیز مواد بنانے والی فیکٹری بھی شامل ہے۔ حزب اللہ نے کہا کہ اس نے شمالی اسرائیلی قصبے افلا کے قریب میگیڈو ہوائی اڈے پر بھی تین بار حملہ کیا ہے۔
اپنی جنوبی سرحد پر غزہ میں تقریبا ایک سال کی جارحیت کے بعد اسرائیل نے اپنی توجہ شمالی سرحد پر مرکوز کردی ہے جہاں حزب اللہ حماس کی حمایت میں اسرائیل پر راکٹ فائر کر رہی ہے۔
رفیق حریری بین الاقوامی ہوائی اڈے کی ویب سائٹ کے مطابق منگل کے روز بیروت سے آنے اور جانے والی 30 سے زائد بین الاقوامی پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ متاثر ہونے والی ایئر لائنز میں قطر ایئرویز، ترکش ایئرویز اور متحدہ عرب امارات کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
لبنان میں عالمی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ لبنان کے کچھ اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور پیر کے روز اسرائیلی شہر پر حملے کے بعد حیفہ کے مرکزی اسپتال نے آپریشن کو زیر زمین مرکز میں منتقل کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان میتھیو سالٹ مارش کا کہنا ہے کہ ہم لبنان میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کو دیکھ رہے ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ تعداد بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
بین الاقوامی تشویش
جیسے جیسے تنازعہ شدت اختیار کر رہا ہے، سفارت کاری کے لیے آوازیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ، وولکر ترک، نے تمام ریاستوں اور بااثر فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ لبنان میں مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
ان اطلاعات کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ اسرائیل نے حملوں سے قبل فون پیغامات کے ذریعے لوگوں کو متنبہ کیا تھا وولکر ترک کے ایک ترجمان نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
ترجمان روینا شمداسانی نے جنیوا میں ایک بریفنگ میں کہاکہ جنگ کے جو طریقے اور وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں، وہ بہت سنگین خدشات کو جنم دیتے ہیں، چاہے آپ نے شہریوں کو فرار ہونے کے لیے وارننگ دی ہو، شہریوں پر ان حملوں کے سنگین اثرات کے بارے میں پتہ ہونے کے باوجود ان علاقوں کو نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ لبنان پر اسرائیلی حملے تیل پیدا کرنے والے مشرق وسطیٰ کو مکمل طور پر غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔
اس لڑائی سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ امریکہ، اسرائیل کا قریبی اتحادی اور علاقائی طاقت ایران، جس کی مشرق وسطیٰ میں پراکسیز موجود ہیں – حزب اللہ، یمن کے حوثی اور عراق میں مسلح گروہ – ایک وسیع تر جنگ میں پھنس جائیں گے۔
ان حملوں نے حزب اللہ پر دباؤ بڑھا دیا ہے جسے گزشتہ ہفتے اس وقت بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا جب اس کے ارکان کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ہزاروں پیجرز اور واکی ٹاکیز دھماکوں سے پھٹ گئے تھے جو کہ اس کی سلامتی کی بدترین خلاف ورزی تھی۔
اس آپریشن کو بڑے پیمانے پر اسرائیل سے منسوب کیا گیا تھا جس کی غیر ملکی سرزمین پر جدید ترین حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس نے ذمہ داری کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
اسرائیل کی انٹیلی جنس اور تکنیکی طاقت نے اسے لبنان اور غزہ دونوں میں مضبوط برتری دے رکھی ہے ۔ اس نے حزب اللہ کے اعلی کمانڈروں اور حماس کے رہنماؤں کا سراغ لگا کر انہیں جاں بحق کیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تازہ ترین حملوں میں تقریبا 55 میزائل اسرائیل میں داخل ہوئے لیکن ان میں سے بیشتر کو ناکام بنا دیا گیا۔
علاقائی عدم استحکام کے خدشات
اسرائیل کے پاس ممکنہ آپشنز میں جنوبی لبنان پر حملہ کرنا اور حزب اللہ کے زیر کنٹرول بیروت کے جنوبی مضافات یا لبنانی بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملوں کو مزید وسعت دینا شامل ہوسکتا ہے جن میں پل اور شاہراہیں اور 2006 کی اسرائیل حزب اللہ جنگ میں تباہ ہونے والے بیروت ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا شامل ہوسکتا ہے۔
حزب اللہ ممکنہ طور پر حماس کے مقابلے میں زمینی حملے میں اسرائیل کی زیادہ طاقتور دشمن ہوگی۔ لبنان پر اسرائیلی حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے ایران کے پاسداران انقلاب کی طرف سے 1982 میں قائم کیا گیا ، یہ وسیع تجربہ رکھتا ہے ، انتہائی نظم و ضبط والا ہے اور اپنے فلسطینی اتحادی کے مقابلے میں بہتر ہتھیار رکھتا ہے۔
لیکن اسرائیل کو اپنی شمالی سرحد کو محفوظ بنانے اور وہاں کے رہائشیوں کو بحفاظت واپس لانے کے لئے عوامی دباؤ کا سامنا ہے جس سے ایک طویل تنازع کی راہ ہموار ہوئی ہے جبکہ حزب اللہ نے غزہ میں تقریبا ایک سال سے جاری جنگ کے خاتمے تک لڑائی جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔
تازہ ترین حملوں سے خوف و ہراس پھیل گیا۔
پیر کے روز جنوبی لبنان سے تعلق رکھنے والے خاندانوں منتقل ہونے کیلئے سامان گاڑیوں پر لاد رکھا تھا تھا تاہم شمال کی شاہراہیں بند تھیں۔
Comments