آئی ایم ایف بورڈ اجلاس جلد ہونے کا امکان ہے، جو اسٹاف لیول معاہدے (ایس ایل اے) پر دستخط کے تقریبا ڈھائی ماہ بعد ہوگا۔ اس تاخیر کی بنیادی وجہ اضافی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت تھی، جس کی مجموعی مالیت 2 ارب ڈالر تھی۔

اس رقم میں سے 600 ملین ڈالر کی کمی رہ گئی کیونکہ دوست ممالک نے آئی ایم ایف کی شمولیت کے باوجود مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کیے۔

نتیجتاً حکومت کو ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی ضمانت پر نجی مارکیٹوں سے مہنگے نرخوں پر قرضے لینے پڑے۔ اس سے قرضوں کی پائیداری کے حوالے سے اہم سوالات اٹھتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ڈیٹ سسٹین ایبلٹی اینالسز (ڈی ایس اے) میں چینی انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی ادائیگیوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ چین نے کوئی اضافی فنڈنگ فراہم نہیں کی۔

مزید برآں ، 3 ارب ڈالر (مالی سال 26 اور مالی سال 27 کے لئے) کی اضافی فنانسنگ چینی ایگزم بینک کی طرف سے آنے کی توقع ہے - جو بنیادی طور پر رول اوور ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے کافی نرمی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

قرضوں کے دباؤ میں مبتلا ممالک کے لئے، آئی ایم ایف کا ساتھ دینا عام طور پر دوسرے فنانسرز سے مدد حاصل کرنے کے لئے ایک شرط ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام قرضوں کی پائیداری کو یقینی بنانے کے لئے ڈیزائن کیے گئے ہیں جب تک وصول کنندہ یا قرض لینے والا اس پروگرام میں رہتا ہے۔

تاہم، حالیہ رجحانات میں تبدیلی کی نشاندہی ہوتی ہے، جس کی مثال سری لنکا اورزیمبیا جیسے ممالک میں چھ ماہ سے زیادہ کی تاخیر ہے۔ لہذا، پاکستان کے معاملے میں تاخیر بالکل حیران کن نہیں ہے۔

اور پھر بھی، ان رجحانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی یقین دہانیاں اب روایتی قرض دہندگان کے لئے کافی نہیں ہیں، خاص طور پر پاکستان جیسے دو طرفہ معاملات میں۔

اگرچہ پاکستان کا زیادہ تر بیرونی قرضہ ملٹی لیٹرل اداروں جیسے ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کے ذمہ ہے، جو آئی ایم ایف کے قریب ہیں، مگر دوطرفہ قرض دہندگان، خاص طور پر چین اور سعودی عرب، کے اپنے خدشات ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ، خاص طور پر چین، پاکستان میں سیاسی استحکام کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ وہ حال ہی میں حاصل کردہ میکرو اکنامک استحکام—جو سخت مالیاتی پالیسی اور مرکزی بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے—کو نازک سمجھتے ہیں کیونکہ یہ سیاسی استحکام کی حمایت نہیں کرتا۔ یہ تشویش مقامی نجی شعبے میں بھی موجود ہے، جو موجودہ حالات میں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہا ہے۔

حکومت نے حال ہی میں تقریبا 11 فیصد پر مہنگا قرض حاصل کیا ہے، جو بنیادی طور پرایشیائی ترقیاتی بینک(اے ڈی بی) کی طرف سے مکمل طور پر ضمانت شدہ تجارتی فنانس ہے۔ یہ ایک امید افزا علامت نہیں ہے۔

اگرچہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کمرشل بینکوں کے قرضوں کی شرح ملکی قرضوں کی درجہ بندی سے منسلک ہے ، لیکن پاکستان نے خراب درجہ بندی کے دور میں بھی کم شرح پر قرضے حاصل کیے ہیں۔ اب ایسا کیوں نہیں کیا جاسکتا؟

یہ صورتحال اس چیلنج کو اجاگر کرتی ہے کہ کس طرح مزید فنانسنگ حاصل کی جائے تاکہ زرمبادلہ ذخائر کو اس سطح پر پہنچایا جاسکے جو ترقی دوست پالیسیوں کی اجازت دے۔ اس سے بیرونی قرضوں کی پائیداری کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں، جو آئی ایم ایف پروگرام کے حصول پر منحصر ہے۔

مزید برآں، آئی ایم ایف کی نرم پالیسی دوطرفہ قرض دہندگان کے لیے پریشانی کا باعث بنتی نظر آرہی ہے، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آئی ایم ایف کی قرض کی پائیداری کے تجزیے (ڈی ایس اے) میں چینی آئی پی پیز کے خلاف ادائیگیوں کو خارج کیا گیا ہے، جو سعودی عرب کیلئے بھی بے چینی کا سبب بن رہا ہے۔

مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ جی ڈی پی میں کوئی بھی نمایاں اضافہ قرض کی ادائیگی میں ناکامی کے خوف کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستان غیر معینہ مدت تک کم شرح نمو کے چکر میں نہیں پھنس سکتا کیونکہ اس کے سنگین سماجی و اقتصادی نتائج ہوں گے۔

جواب میں، حکام توانائی کے معاہدوں کی تنظیم نو پر کام کر رہے ہیں اور تمام آئی پی پیز کے ساتھ تازہ مذاکرات جاری ہیں، سوائے ان کے جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت ہیں اور جو حکومت کی ملکیت میں ہیں۔

چینی آئی پی پیز کو ادائیگیاں غیر معینہ مدت تک تاخیر کا شکار ہیں اور حکومت نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ ان آئی پی پیز میں قرضوں کو دوبارہ تشکیل نو کرے۔

مزید برآں، حکومت قطر کے طویل مدتی آر ایل این جی معاہدے پر نظرثانی کے لیے اس کے ساتھ بات چیت کرنے پر غور کررہی ہے۔

یہ سودا نہ صرف مہنگا ہے بلکہ فی الحال طلب سے بھی زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ تجارتی قرض کا ایک حصہ قطر سے آر ایل این جی کی مالی اعانت کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

اشارے واضح ہیں: حکومت نے مختلف شکلوں میں قرضوں کی تنظیم نو کی کوششیں شروع کردی ہیں۔

مقامی قرضے بھی ناقابل برداشت ہیں کیونکہ بھاری سروسنگ لاگت حکومت کو موجودہ ٹیکس دہندگان سے ٹیکس آمدن بڑھانے پر مجبور کرتی ہے۔ ان کارپوریٹس، فرمز اور افراد پر پہلے ہی اسکینڈینیوین ممالک کے مساوی شرح پر ٹیکس عائد کیا جاتا ہے حالانکہ انہیں اسی طرح کے یا قریب قریب کے فوائد بھی نہیں ملتے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ آئی ایم ایف کی شمولیت ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن یہ پاکستان کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

ملک کو طویل مدتی نقصانات سے بچنے کے لئے سیاسی استحکام، قرضوں کی پائیداری اور معاشی تنظیم نو پر توجہ دینی ہوگی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف